کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 437
یہاں اس آیت مبارکہ میں کلمہ [نبغ] کے آخر میں فعل کی یائے اصلیہ محذوف ہے۔سرعت اور جلدی پردلالت کرتاہے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس نیک بندے کو جلد ازجلد ملناچاہتے تھے۔ ٭اسم کی یائے اصلی کاحذف: المُھْتَدِ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مَنْ یَھْدِ اللّٰہ فَھُوَ الْمُھْتَدِ﴾ [الکہف:۱۷] اس آیت مبارکہ میں کلمہ [المھتد] کے آخر سے اسم کی یائے اصلی محذوف ہے۔ جو سرعت ہدایت پر دلالت کرتی ہے، ایسی ہدایت جس کے بعد گمراہی نہ ہو۔ الْجَوَارِ کلمہ [الْجَوَارِ ] بحذف الیاء، قرآن مجیدمیں تین مقامات پر وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ﴿وَمِنْئَ ایٰتِہِ الْجَوَارِ فِیْ الْبَحْرِ کَالأعْلَامِ﴾ [الشوریٰ:۳۲] ﴿وَلَہُ الْجَوَارِِ الْمُنْشَئَاتُ فِیْ الْبَحْرِ کَالأعْلٰمِ﴾ [الرحمن :۲۴] ﴿الْجَوَارِ الْکُنَّسِ﴾ [التکویر:۱۶] اس کلمہ کے آخر سے یاء اصلی کاحذف، پہلی دونوں آیات میں کشتیوں اور تیسری آیت میں ستاروں کی سرعت حرکت پر دلالت کرتا ہے۔ ٭حرف ِ تاء کا حذف تَسْتَطِعْ ....تَسْطِعْ کلمہ [تَسْتَطِعْ ] اپنے اس معروف رسم پر، قرآن مجید میں فقط ایک مرتبہ وارد ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأوِیْلِ مَالَمْ تَسْتَطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا﴾ [الکہف:۷۸] یہاں وہ نیک آدمی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گذشتہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات کے خفیہ اسباب بیان کرنے لگے تھے اور طبعی طور پر یہ مناسب تھا کہ یہ کلمہ اپنے معروف رسم کے مطابق آتا کیونکہ انہوں نے حکمت کے ساتھ ان واقعات کے خفیہ اسباب کو نقل کیاتھا۔جیساکہ اگلی آیات سے معلوم ہوتا ہے۔لہٰذا اس کلمہ کا معروف رسم کے مطابق آنا، ان کی حکمت اور صبروتحمل پردلالت کرتاہے۔ جبکہ کلمہ [تَسْطِعْ ] بحذف التاء، بھی اپنے معروف رسم کے خلاف، قرآن مجیدمیں ایک مرتبہ ہی وارد ہوا ہے۔جہاں موسیٰ علیہ السلام کے قصے کی انتہا ہے اور وہ نیک آدمی موسیٰ علیہ السلام پر اپنے موقف کا خلاصہ بیان کرتاہے اور تفصیل سے آگاہ کرتاہے۔جس پر موسیٰ علیہ السلام جلدی کررہے تھے اور صبر نہیں کر رہے تھے۔چنانچہ اس نیک آدمی نے اس جلدی