کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 435
اور نیکی دس گنا سے لے کرسات سو گنا تک بڑھادی جاتی ہے۔ الطَّلَٰقُ کلمہ [الطَّلَٰق] بدون الف، قرآن مجید میں درج ذیل دو مقامات پر وارد ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَاِنْ عَزَمُوْا الطَّلَٰق فَاِنَّ اللّٰہ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾ [البقرۃ:۲۲۷] ﴿ الطَّلَٰق مَرَّتَانِ فإمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسٰنٍ﴾ [البقرۃ:۲۲۹] اس کلمہ [الطَّلَٰق] کے وسط میں عدم الف سے رسم، اس امر پر دلالت کرتاہے کہ جس طرح الف کے حذف سے یہ کلمہ مختصر اور تنگ ہوجاتاہے،اسی طرح طلاق کامعاملہ بھی انتہائی تنگ حدود میں واقع ہوناچاہئے، اور جتنا ممکن ہو جلداز جلد رجوع کرلیاجائے۔ نیز حذف الف اس امر پربھی دلالت کرتاہے کہ ابھی تک(عدت کے زمانے میں ) میاں بیوی کے درمیان ربط قائم ہے اور ان کے درمیان انفصال نہیں ہوا۔ کلمہ [مرتان] میں الفِ صریح کاوجود اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں طلاقیں علیحدہ علیحدہ ہوں گی، ایک ہی دفعہ میں نہیں ہونگی۔ گویا کہ الف ان دونوں طلاقوں کے درمیان فاصلہ ہے۔ قرآن مجید کے لطائف ِعلمیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے: ﴿الطَّلَٰقُ مَرَّتَانِ﴾ ’’طلاق دو مرتبہ ہے‘‘ فرمایا ہے، اورعملاً پورے قرآن مجید میں لفظ طلاق بھی دو مرتبہ ہی واقع ہوا ہے۔ ٭ ’یاء‘ حرف ِ ندا اور ’ھائِ‘ تنبیہ کے آخرسے الف کاحذف: قرآن مجید میں ہر جگہ حرف ِ ندا ’’یاء‘‘ اور ’’ ھائِ‘‘ تنبیہ کے آخر میں واقع الف کو حذف کرکے لکھا گیاہے۔جیسے یَٰقَوْمِ، یَٰرَبِّ، یَٰأیُّھَا النَّاسُ، یَٰصَٰلِحُ، ھٰٓأنْتُمْ، ھَٰؤٓلَائِ،ھَٰذَا، ھَٰھُنَا وغیرہ۔ یہاں الف کا حذف اس امر پردلالت کرتاہے کہ ندا اور تنبیہ قریب سے ہونی چاہئے،تاکہ مؤثر ہو اور امور مُلتبس نہ ہوں ۔ ٭حذف ِ یاء کی چند مثالیں : إِبْرَٰ ھٖمَ ....إِبْرَٰھِیمَ کلمہ [إِبْرَٰھٖمَ] بدون الیاء قرآن مجید میں پندرہ [۱۵] مرتبہ وارد ہوا ہے اور پندرہ [ ۱۵] مرتبہ ہی سورۃ البقرہ میں وارد ہے۔ جبکہ کلمہ [إِبْرَٰھِیمَ] بالیاء قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کے علاوہ دیگر سورتوں میں چون(۵۴) مرتبہ وارِد ہوا ہے۔ تورات میں سفر تکوین کے پارٹ نمبر۱۷ میں مذکور ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پہلانام ’ابراہٰم‘ تھا۔ اس وقت ان کی عمر ۸۶ برس تھی۔ جب سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہ نے ان کابیٹا اسماعیل علیہ السلام جنا اوران کی عمر ۹۹ سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کرتے ہوئے فرمایا: عنقریب ابراہیم علیہ السلام جمہور اُمت کے باپ ہوں گے۔ لہٰذا آج کے بعد انہیں ’ابرَاہٰم‘کی