کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 434
دلالت کررہی ہوتی ہے۔بایں طور پر کہ کلمہ قرآن میں کسی قسم کا التباس یاغموض باقی نہیں رہتا۔ [ومن أصدق من اللّٰہ حدیثًا] بِسْمِ ....بِاسْمِ کلمہ [بِسْمِ] بدون ِ الف قرآن مجید میں درج ذیل تین مقامات پر وارد ہوا ہے۔ .... ﴿ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ﴾ [الفاتحۃ: ۱] .... ﴿بِسْمِ اللّٰہ مَجْرِیھَا وَمُرْسَٰھَا﴾ [ہود: ۴۱] ....﴿إنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَٰنَ وِإنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ﴾ [النمل:۳۰۱] اور کلمہ [بِاسْمِ] ہمزہ وصلی کے ساتھ قرآن مجید میں درج ذیل چار مقامات پر وارد ہوا ہے: .... ﴿بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْم﴾ [الواقعۃ: ۷۴] .... ﴿ بِاسْم رَبِّکَ الْعَظِیمِ﴾ [الواقعۃ : ۹۶] .... ﴿فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکِ الْعَظِیْم ﴾ [ الحاقّۃ:۵۲] .... ﴿اِقْرأ بِاسْم رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ﴾ [العلق :۱] جب ہم کلمہ [بِسْمِ] بدون الف کے مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد لفظ جلالہ [اللّٰہ ] واقع ہے اور یہ ابتداء کرنے کے معنی میں مستعمل ہے جیسے [بِسْمِ اللّٰہ ] لہٰذا ان مقامات پر حذف الف اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے جلدی جلدی نیک اعمال کرنے پراشارہ کرتا ہے۔ جبکہ وہ مقامات جن پرکلمہ [بِاسْمِ] الف ِ وصلی کے ساتھ وارد ہواہے، وہاں تسبیح و قراءۃ مقصود ہے اور یہ امور تفکر، تدبر اور تمہل کے متقاضی ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کلمہ سے کوئی حرف حذف کردینے سے اس میں سرعت کا معنی پیدا ہوجاتاہے یعنی نیکی کرنے میں جلدی کرو یہ بھی رسم قرآنی کا ایک اعجاز ہے۔ إِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ کلمہ [الْحَسَنَٰت] قرآن مجیدمیں تین مقامات پر وارد ہوا ہے اور تینوں جگہ ہی درمیان میں حذف الف کے ساتھ وارد ہے۔ اور کلمہ [السَّیِّئَات] قرآن مجید(۳۶) مقامات پر وارد ہوا ہے اور تمام مقامات پر بالالف وارد ہے۔ کلمہ [الْحَسَنَٰت] کا بدون الف وارد ہونا اس امر پر اشارہ کرتا ہے کہ نیکی اگرچہ قلیل ہو پھر بھی انسان کے ساتھ مُلصق رہتی ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس کلمہ [السَّیِّئَات] کا الف کے ساتھ وارد ہونااس امر پر اشارہ کرتا ہے کہ برائی ہمیشہ انسان کے ساتھ نہیں رہتی۔ اگر انسان توبہ کرلے تو وہ نیکی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جیساکہ بذات خود اس آیت کریمہ ﴿إِنَّ الْحَسَنَٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ﴾ [ہود :۱۱۴] سے بھی سمجھ آتا ہے،کہ تھوڑی سی نیکیاں زیادہ برائیوں کاخاتمہ کردیتی ہیں