کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 433
یَقُوْلُ لِصَٰحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ إنَّ اللّٰہ مَعَنَا﴾ [التوبۃ:۴۰] جو ان دونوں کے درمیان انتہائی محبت اور رفاقت و ایمان میں حقیقی صحبت پر دلالت کرتاہے۔
اسی طرح کلمہ [صَٰحِبَۃ] ’بمعنی زوجہ‘ پورے قرآن مجید میں بدون الف ہی وارد ہے جو اپنے مقصودی معنی یعنی قرب کامل اور زوجین کے درمیان التصاق پر دلالت کرتاہے کیونکہ بیوی اپنے خاوند کے لیے سکون اور لباس ہے۔ ﴿ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ﴾ [البقرۃ:۱۸۷]
خلاصہ کلام
مذکورہ کلمات پرمشتمل آیات کریمہ کا مطالعہ اور تحقیق کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ جہاں جہاں بھی یہ کلمات ثبوت الف کے ساتھ وارد ہیں وہاں انفصال کامعنی پایاجاتاہے خواہ انفصال زمانی ہو، مکانی ہو، ایمانی ہو یا نفسی ہو۔ اور جہاں حذف الف کے ساتھ وارد ہیں وہاں قرب اور التصاق کامعنی پایاجاتاہے۔
أَصْحَٰبُ
کلمہ [أَصْحَٰبُ] قرآن مجید میں اٹھتر [۷۸] مرتبہ آیا ہے اور تمام جگہ ہی بدون الف وارد ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
[أَصْحَٰبُ النار] بیس مرتبہ
[أَصْحَٰبُ الجنۃ] چودہ مرتبہ
[أَصْحَٰبُ الجحیم] چھ مرتبہ
[وأَصْحَٰبُ الیمین] چھ مرتبہ
[أَصْحَٰبُ الأیکۃ] چار مرتبہ
[أَصْحَٰبُ السعیر] تین مرتبہ
[أَصْحَٰبُ المیمنۃ] تین مرتبہ
[وأَصْحَٰبُ المشئمۃ] تین مرتبہ
[وأَصْحَٰبُ الشمال] دو مرتبہ
[وأَصْحَٰبُ الرأس] دومرتبہ
[وأَصْحَٰبُ مدین] دو مرتبہ
مذکورہ تمام مقامات پر کلمہ [أَصْحَٰبُ] بدون الف وارد ہوا ہے جو [أَصْحَٰبُ النار]، [أَصْحَٰبُ الجنۃ]، [أَصْحَٰبُ الجحیم] اور[أَصْحَٰبُ السعیر] میں خلود اور التصاق پردلالت کرتا ہے۔ خواہ جنت میں ہو یاجہنم میں ۔اسی طرح دیگر مقامات میں بھی التصاق پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثالیں بیان کی ہیں اور انہیں ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بنادیا ہے۔
کلمہ قرآنی کا رسم، معنی واضح کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کے لیے ذہنی صورت بھی نقل کرتا ہے، جو مقصودی معنی پر