کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 432
٭کبھی کسی شے کے چھوٹے پن پردلالت کرتا ہے، جیسے: [غُلَٰم]، [کِذَّٰبًا]
٭کبھی سرعت پردلالت کرتاہے، جیسے : [الصَّٰعِقَۃ] ، [الخَٰلِقُ]، [أو إطْعَٰمٌ فِی یَوْمٍ ذِی مَسْغَبَۃٍ]
٭کبھی تخلیق میں کمزوری اور جلدبازی پردلالت کرتاہے، جیسے: [وَالْقَوَٰعِدُ مِنَ النِّسَآئِ] ،[الْیَتَٰمَٰی]
٭کبھی متعدد صفات ِمشترکہ کو جمع کرنے والے کے وجود پر دلالت کرتاہے، جیسے :[الظَّٰلِمِین]، [ الکَٰفِرِین]
٭کبھی سکون اور اطمینان پردلالت کرتاہے، جیسے: [أَمْوَٰتًا]
٭کبھی حکم دینے اورمعنی کی قطعیت پر دلالت کرتا ہے، جیسے: [الإسْلَٰم]، [الإیمَٰن]، [میثَٰقَکُمْ]
٭کبھی کسی شے کی حدود کی تنگی پردلالت کرتا ہے، جیسے: [الطَّلَٰقُ]
حذف الف کی چند معروف مثالیں
وَالصَّاحِبِ،لِصَٰحِبِہ، صَٰحِبَۃ
قرآن مجید میں کلمہ [صَاحِبُہ] ثبوت الف کے ساتھ آٹھ(۸) مقامات پر وارد ہے اور کلمہ [صَٰحِبَۃ] ثبوت الف کے ساتھ کہیں بھی وارد نہیں ہے۔(یعنی ہرجگہ بحذف الف وارد ہے)
اسی طرح کلمہ [لِصَٰحبِہ] بدون الف چار(۴) مقامات پر وارد ہے۔
٭بعض آیات قرآنیہ میں کلمہ [صَٰحِبِہ] اور کلمہ [صَٰحِبَۃ] بدون الف وارد ہے، جو قرب اور التصاق کے معنی پردلالت کرتا ہے۔ جیساکہ سورۃ الکہف کی آیت نمبر۳۴ میں اللہ تعالیٰ دو باغوں کی مالک کی گفتگو کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ۔﴿ فَقَالَ لِصَٰحِبِہٖ وَھُوَ یُحَاوِرُہٗ ﴾ یہاں کلمہ [لِصَٰحِبِہٖ] بدون الف وارد ہے۔ جو اس اَمر پر دلالت کرتاہے کہ وہ شخص اپنے ساتھی کو ایمان و صحت میں اپنا قریبی اور ہم خیال تصور کرتا تھا۔ لیکن جب وہ شخص(باغوں کا مالک) اللہ کا کفر کرنے لگا اور قیامت کاانکار کردیا تو فوراً قرآن مجید کا رسم اور کتابت متغیرہوگئی۔ اسی لیے اگلی آیات میں کلمہ [صَاحِبُہ] ثبوت الف کے ساتھ وارد ہے، جو ان کے درمیان زمانی ومکانی صحبت کے باوجود انفصالِ ایمانی پردلالت کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ اس سورت کی آیت نمبر ۳۷ میں فرماتے ہیں :﴿قَالَ لَہٗ صَاحِبُہُ وَھُوَ یُحَاوِرُہَ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ﴾
اس معنی کی وضاحت اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوان کی قوم کی طرف منسوب کرکے بیان کیا ہے، وہاں کلمہ [صَاحِبُکُمْ، صَاحِبُھُمْ] ثبوت الف کے ساتھ وارد ہے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور قوم کے درمیان انفصالِ ایمانی پر دلالت کرتا ہے۔ باوجودیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمان و مکان میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
.... ﴿ مَا بِصَاحِبِکُمْ مِنْ جِنَّۃٍ﴾ [سبأ:۴۶]
....﴿ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾ [النّجم:۲]
....﴿ وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ﴾ [التّکویر:۲۲]
....﴿ مَا بِصَاحِبِھِمْ مِنْ جِنَّۃٍ ﴾ [الأعراف:۱۸۴]
مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں کلمہ [لِصَٰحِبِہ] بدون الف وارد ہے۔﴿ اِذْ