کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 426
اختلاف قراء ات ان تمام مقامات میں اس صیغہ میں دو قرا ء تیں ہیں : نمبر ۱۔ المُخلِصِینَ صیغہ اسم فاعل کے ساتھ نمبر۲۔ المُخلَصِینَ صیغہ اسم مفعول کے ساتھ امام عاصم رحمہ اللہ ،حمزہ رحمہ اللہ ،کسائی رحمہ اللہ ، اور خلف رحمہ اللہ ہرجگہ اس کو صیغہ اسم مفعول یعنی بفتحہ لام پڑھتے ہیں ۔باقی قراء ان تمام مقامات پر اس صیغہ کواسم فاعل کے وزن پر بکسر لام پڑھتے ہیں ۔ [النشر:۲/۲۹۵] توجیہ ومعنی قراء ات صیغہ اسم فاعل والی قراءت کا معنی تو یہ بنتا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے دین اور اعمال کواللہ تعالیٰ کے لیے خالص کیا ہے اور اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوتی ہے : ﴿إلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا وَأصْلَحُوْا وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ وَأخْلَصُوْا دِیْنَھُمْ للّٰہ فاُولٰئِکَ مَعَ الْمُؤمِنِیْنَ﴾ ’’مگروہ لوگ جوتائب ہوئے،اصلاح کی،اوراللہ کے ساتھ جڑے رہے،اوراپنے دین کواللہ کے لئے خالص کیا،تویہ ہی مومنین کے ساتھ ہوں گی‘۔‘[النسآء :۱۴۶] اور صیغہ اسم مفعول والی قراءت کا معنی یہ بنتا ہے کہ اللہ نے ان کی برائیوں اور منکرات سے خالص کردیا ہے۔ اور اس معنی کی تائید اس آیت سے ہوجاتی ہے : ﴿إنا أخلصنٰھم بخالصۃ ذکری الدار ﴾ [ صٓ :۴۶] ’’ہم نے ان کوایک خاص بات کے ساتھ مخصوص کیاتھااور وہ آخرت کی یادہیں۔‘‘ کیونکہ مؤمنین میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں یعنی اللہ نے ان کو اخلاص کی توفیق دی ہے ۔اور انہوں نے اپنے دین کو ریاکاری سے خالی رکھاہے ۔لہٰذا ان تمام مذکورہ مقامات میں یہ کلمہ صیغہ اسم مفعول اورصیغہ اس فاعل دونوں طرح سے پڑھا گیا ہے تاکہ مؤمنین کی ان دونوں صفات پر دلالت ہوسکے ۔ نتیجہ قراء ات گویا یہ دونوں قراء تیں ایک دوسرے کے معنی کی تکمیل کرتی ہیں اور ساتھ ہی اس بات کی طرف اشارہ بھی ہوجاتا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین اور اپنے اعمال کو اللہ کے لیے خالص رکھا ہے، تواس اخلاص کی توفیق ان کو خود اللہ ہی نے دی ہے ان کا اپنا کمال نہیں ہے ۔یعنی مخلِص ( اسم فاعل)سے صرف یہ سمجھ میں آتاہے کہ وہ ازخوداخلاص کواختیارکرنے والاہے،یکنمخلَص(اسم مفعول)سے اس طرف اشارہ ملتاہے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے اخلاص کی نعمت عطاء فرمائی ہے،لہٰذااسکے اخلاص میں ایک خاص روحانی قوت بھی ہوگی۔ نمبر۹۔ أن یَغُلَّ/یُغَلَّ ﴿وَمَاکانَ لِنَبِیٍّ أن یَغُلَّ/یُغَلَّ ومن یّغلُل یأت بماغلّ یوم القیٰمۃِ، ثمّ توفّٰی کلُّ نفسٍ مّاکسبَتْ وَھُمْ لایُظلَمُونَ﴾ [آل عمران:۱۶۱]