کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 424
کرناعالموں کاکام ہے ۔ نمبر۷۔ ھَل یَستَطِیعُ ربُّکَ/ھَل تَسْتَطِیعُ ربَّکَ ﴿اِذقَالَ الحَوَارِیُّونَ یٰعیسَی ابنَ مَریمَ ھَل یَستَطِیعُ ربُّکَ/ھل تَسْتَطِیعُ ربَّکَ أن یُّنزّلَ عَلینَامائدۃً مّنَ السّمائِ، قالَ ا تّـقُوا اللّٰہَ اِن کُنتُم مُّؤمنینَ﴾ [المائدۃ:۱۱۲] ’’جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب مان لے گا کہ وہ ہم پر آسمان سے ایک دسترخوان نازل کردے،توحضرت عیسیٰ نے کہااللہ سے ڈرواگرتم ایمان رکھتے ہو۔‘‘ اختلاف قراء ات اس آیت میں دوقراء تیں ہیں : نمبر ۱۔ ھل تَسْتَطِیعُ ربَّـک امام کسائی رحمہ اللہ کی قراءت ہے۔ نمبر۲۔ ھل یَستَطِیعُ ربُّک باقی سب قراء۔ [النشر: ۲/۲۵۶] توجیہ ومعنی قراء ات بعض علماء نے کہا ہے کہ اس جگہ استطاعت سے مراد حکمت وارادہ کا تقاضا ہو سکتا ہے ۔قدرت رکھنے کا مفہوم وارد نہیں ہے۔اللہ کی قدرت میں تو حواریوں کو شک نہیں تھا، مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اللہ کی حکمت وارادہ بھی ایساہو سکتا ہے یا نہیں ،کہ آسمانوں سے خوان نازل فرمادے ۔ بعض علماء نے کہا کہ کلام کا وہی مطلب ہے جو ظاہری الفاظ سے معلوم ہورہا ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی ایمان تھا ، اس وقت تک ان کے دلوں میں معرفت کا استحکام نہیں ہوا تھاکیونکہ جاہلیت اور کفر کا زنامہ ماضی قریب ہی میں ختم ہوا تھا ۔ اور امام کسائی رحمہ اللہ کی قراءت میں ھل تَسْتَطِیعُ ربَّک آیا ہے ۔یہ عیسیٰ علیہ السلام کو خطاب ہے اور ربک مفعول ہے یعنی اے عیسیٰ علیہ السلام کیا آپ اپنے رب سے یہ درخواست کردیں گے ؟اور آپ کے لئے یہ دعا کرنے میں کوئی رکاوٹ تو نہیں ہے؟ اور کیا آپ کا رب آ پ کی یہ درخواست قبول کرے گا ؟ جیساکہ تفسیرمظہری میں ہے: ’’استطاعت کا معنی( یہاں ) اطاعت ہے ،مان لینا یعنی درخواست کے مطابق کردینا۔‘‘ [تفسیر مظہری :۴/۹۰،۱] حضرت علی،حضرت عائشہ،حضرت عبداللہ بن عباس کی بھی یہی قر اء ت ہے رضی اللہ عنہم [معجم القراءات القرآنیۃ،۲/۲۳۸] اس قراءت کو اختیارکرنے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا حواری اللہ( کے رتبہ ) سے خوب واقف تھے ۔(ثناء اللہ پانی پتی :حوالہ مذکور) اسی لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے ان کے قول کوبڑی گستاخی قراردیتے ہوئے فرمایا : ﴿اِتَّقُوْااللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُؤمِنِیْنَ﴾ ’’یعنی اگر مومن ہو تو اللہ سے ڈرو(اللہ کی قدرت میں شک نہ کرو)۔‘‘(ایضا) حضرت تھانوی رحمہ اللہ اس کامعنی لکھتے ہیں :