کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 422
معنی قراء ات مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (م۱۳۶۲ھ)بیان القرآن میں لکھتے ہیں : ’’فی قراءۃ یقاتلون مبنیا للفاعل أی الذین یریدون للقتال ویحرصون علیہ۔‘‘ [ بیان القرآن:۷/۷۴] ’’ایک قراءت میں یقاتلون معروف ہے ۔معنی ہے کہ وہ لوگ جوقتال کاارادہ اورخواہش کررہے ہیں ۔‘‘ علامہ آلوسی رحمہ اللہ روح المعانی میں لکھتے ہیں : ’’أی یریدون أن یقاتلوا المشرکین فی المستقبل ویحرصون علیہ‘‘ [ ۱۷/۱۶۱] ’’یعنی ان کواجازت ہے جولوگ مشرکین سے مستقبل میں قتال کاارادہ اورخواہش رکھتے ہیں ۔‘‘ نیزصیغہ معروف والی قراءت کے لیے متعدد مؤیدات بھی پائے جاتے ہیں مثلا: نمبر ۱۔ ﴿وجاھِدوا فی اللّٰہ حق جھادہ﴾ [ الحج :۷۸] نمبر۲۔ ﴿قاتِلوا الذین لا یؤمنون باللّٰہ﴾[التوبۃ : ۳۹] چنانچہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ اورحضرت تھانوی رحمہ اللہ نے یقاتلون کا ترجمہ یریدون القتال ویحرصون علیہ سے کیا ہے ، جس سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ قتال کی اجازت ہر طرح کے لوگوں کو ہے: (ا) یعنی وہ لوگ جن کے اوپر مشرکین حملہ آور ہو جائیں ۔ (ب) وہ لوگ بھی جو کہ ماضی میں مشرکین وکفار کے ظلم کا شکار رہے ہوں ۔ (ج) اوروہ لوگ جن کوظالم کے ظلم کا یقین ہو ۔ نتیجہ قراء ات مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ (م۱۹۷۴ء)معارف القرآن میں لکھتے ہیں : ’’حق کو باطل کی سر کوبی کا ہر وقت حق حاصل ہے حتی کہ اگرحق مصلحت سمجھے، قبل اس کے کہ باطل سر اٹھائے ،اس کے سر اٹھانے سے پہلے ہی اسکا سر کچل دیا جائے تو یہ بھی عین حق اورکمال تدبر اور دانائی ہے ۔اور انتظار میں رہنا کہ جب باطل مجھ پر حملہ آور ہو تو اسکی مدافعت کرونگا تو یہ کم عقلی ہے ۔‘‘ آگے لکھتے ہیں : ’’پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت جہاد کا دوسرا سبب بیان فرمایا کہ جس طرح مظلوم کے لئے ظالم کے ظلم کی مدافعت، اجازتِ جہاد کا سبب بنی، اس طرح اجازتِ جہاد کا ایک سبب دینی مصلحت بھی ہے، وہ یہ کہ اللہ کی حکمت اس امر کی مقتضی ہے کہ ہر زمانہ میں دین حق، انبیاء کرام، اور ان کے نائبوں کے ہاتھوں غالب ہوتارہے۔‘‘ [معارف القرآن: ۵/۲۶،۲۷] گویا ان دو قرا ء توں کی وجہ سے اس آیت کے معنی میں مزید وسعت پیدا ہوگئی ہے ۔ نمبر۶۔ لِلْعٰـلِمِیْنَ/ لِلعٰـلَمِینَ ﴿ومن آیتہٖ خَلقُ السّمٰوٰت والأرضِ واختلافُ أ لْسِنتِکم وأ لوانِکم اِنّ فی ذٰلک لایٰتٍ لّلعٰلمِینَ﴾