کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 420
توجیہ قراء ات تخفیف والی قراءت ذِکْرٌ سے مشتق ہے جو کہ نسیان کی ضد ہے ۔جبکہ تشدید والی قرا ء ت تذکُّرسے مشتق ہے جس کا معنی ہے: تدبّر اور اتّعاظ یعنی غوروفکرکرنااورنصیحت حاصل کرنا ۔ تفسیر عثمانی میں ہے: ’’ یعنی قرآن کریم مختلف عنوانوں اور رنگ برنگ کے دلائل وشواہد سے ان مشرکین کو فہمائش کرتا ہے، لیکن بجائے نصیحت حاصل کرنے کے، یہ بدبخت اور زیادہ بدکتے اور وحشت کھاکر بھاگتے ہیں ۔‘‘ [تفسیرعثمانی:۱/۸۸۰،الاسراء:۴۱] معنی قراء ات امام قیسی رحمہ اللہ (م۴۳۷ھ ) لکھتے ہیں : ’’والتذّکر أولٰی بنا من الذّکرلہ بعد النسیان‘‘ ’’تذکرہمارے لئے زیادہ مناسب ہے نسیان کے بعد اس کویادکرنے سے ‘‘۔ آگے لکھتے ہیں : ’’فالتشدید للتدبر والتخفیف للذکر بعد النسیان۔‘‘ [الکشف: ۲/۴۷] ’’تشدیدتدبر کے معنی کے لئے ،اورتخفیف بھول کے بعدیادکرنے کے معنی کے لئے ہے۔‘‘ اسی طرح تفسیرزاد المسیر میں ہے: ’’والتّذکّـر:الا تّعاظ والتّد بّر۔‘‘ [زاد المسیر:۳/۲۶] تفسیر روح المعانی میں ہے : ’’وقرأحمزۃ والکسائی ھنا وفی الفرقان لیذکروا من الذکر الذی بمعنی التذکر ضد النسیان والغفلۃ،والتذکّر علی القراءۃ الأولیٰ بمعنی الا تّعاظ‘‘[روح المعانی : ۱۵/۸۲] ’’امام حمزۃ رحمہ اللہ اورکسائی رحمہ اللہ نے اس کلمہ کو یہاں اورسورہ فرقان میں مادہ ذکر سے پڑھاہے،جوکہ تذکرکے معنی میں ہے اور نسیان اورغفلت کی ضدہے۔ جبکہ تذکّر پہلی قراءت کے مطابق نصیحت حاصل کرنے کے معنی میں ہے۔‘‘ نتیجہ قراء ات خلاصہ یہ نکلا کہ اس آیت میں دو قراء تیں ہونے کی وجہ سے حکم کے دو پہلو نکل آئے : نمبر ۱۔ قرآن کا ذکر یعنی اس کی تلاوت کرنااوریاد کرنا۔ نمبر۲۔ قرآن سے وعظ ونصیحت حاصل کرنا ۔ اور یہ دو ایسے معنی ہیں جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں پائے جاسکتے ۔یعنی ذکر کے بغیر نصیحت حاصل نہیں ہوسکتی اور نصیحت حاصل کئے بغیر ذکرناقص ہے۔ چنانچہ ان معانی کی تائید ایک اور آیت سے ہو جاتی ہے: ﴿ وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدّکر﴾ [القمر :۱۷] اس آیت میں بھی ان دونوں معانی کو جمع کیا گیا ہے یعنی ذکر جوکہ نسیان کی ضد ہے اور اذتکار یا تذکرجو کہ غفلت کی ضد ہے، لیکن مذکورہ آیت میں یہ دونوں معانی ایک ہی کلمہ میں دو قراء توں کی بناء پر حاصل ہوجاتے ہیں ۔