کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 418
نتیجہ قراء ات ان دونوں قراء توں کامعنی سامنے رکھتے ہوئے یہ واضح ہوتاہے کہ کسی معاملہ کی تحقیق میں معلومات کوہراعتبارسے جانچنااوربغیرتحقیق کے کسی خبرکوقبول کرنابعدمیں شرمندگی اورافسوس کا باعث ہوسکتاہے۔ نمبر۳۔ وَلاتُسْـَٔـلُ/وَلاتَسْـَٔـلْ ﴿اِنّا اَرسلنٰـکَ بالحقّ بَشیرًا وَّنَذیرا وَلا تُســَٔلُ عَن اَصحٰب الجَحیمِ﴾ [البقرۃ :۱۱۹] مختلف قراء ات اس آیت میں کلمہ ولا تسـٔل میں دو قراء تیں ہیں : نمبر ۱۔ وَلا تَسْـَٔـلْ امام نافع رحمہ اللہ اوریعقوب رحمہ اللہ نمبر۲۔ وَلا تُسْـَٔـلُ باقی سب قراء ۔[النشر:۲/۲۲۱] توجیہ قراء ات امام ابن خالویہ رحمہ اللہ (م ۳۷۰ھ)الحجۃ میں لکھتے ہیں : ’’ فالحجۃ لمن رفع أنہ أخبر بذلک وجعل لا نافیۃ بمعنی لیس،ودلیلہ قراءۃ عبد اللّٰہ وأبی ولن تسأل۔والحجۃ لمن جَزمَ أنّہ جعلَہ نہیاً۔‘‘ [ص۳۶] ’’جنہوں نے مرفوع سے پڑھاہے،ان کی قراءت کی توجیہ یہ ہے کہ یہ اس بات کی خبرہے،اورلانافیہ لیس کے معنی میں ہے۔اور اس کی دلیل عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اورابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی قراءت ’وَلَن تُسألَ‘ ہے۔‘‘ [معجم القراءات القرآنیہ :۱/۱۰۸] البتہ جنہوں نے جزم سے پڑھاہے ان کے نزدیک یہ نہی کاصیغہ ہے۔ معنی قراء ات تفسیر مظہری میں ہے :’’جمہور کی قراءت کے موافق ولا تُسْـٔلُ عن أصحٰب الجحیم کے یہ معنی ہوں گے: ’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اس کی پوچھ گچھ نہ ہوگی کہ یہ لوگ ایمان کیوں نہ لائے ۔آپ کے ذمہ توصرف پہنچادیناہے۔اور نافع رحمہ اللہ کی قراءت پر سو ال سے نہی(منع)کرنا شدت عذاب سے کنایہ ہوگا۔ جیسے کہا کرتے ہیں : اس کا حال مت پوچھ یعنی وہ بہت تکلیف میں ہے ۔‘‘[تفسیر مظہری:۱/۲۰۷، روح المعانی: ۱/۳۳۳] مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ صیغہ نہی والی قراءت کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’قرأ نافع ولا تسـٔل علی صیغۃ النہی إیذانا بکمال شدۃ عقوبۃ الکفار وتھویلاً لھا ‘‘ [بیان القرآن :۱/۶۵] ’’نافع رحمہ اللہ نے صیغہ نہی سے پڑھاہے ؛تاکہ کفار کے عذاب کی شدت کی طرف اشارہ ہوجائے‘‘۔ اسی طرح امام قرطبی رحمہ اللہ(م۶۷۱ھ) نفی والی قراءت کا معنی بیان کرتے ہیں : ’’ والمعنٰی اِنّا أرسلنٰـک بالحقّ بشیرًا وّنذیرًا غیرَ مَسـٔـولٍ عنھُم۔‘‘ [أحکام القرآن :۲/۹۲] ’’اورمعنی یہ ہے کہ بیشک ہم نے آپ کو حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا،ڈرانے والابناکربھیجاہے،اس حال میں کہ ان کے بارے میں آپ سے کوئی سوال نہ ہوگا۔‘‘