کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 417
(ب)﴿یٰٓـأیّھا الّذین اٰمَنُوْا إنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌ بنبـاٍ فتبیّنوا أنْ تُصِیْبُوا قومًا بجہالۃٍ فتُصبِحُوا عَلٰی ما فَعلتُم نٰدمین َ﴾ [ الحجرات: ۶] اختلاف قراء ات ان دونوں آیتوں میں کلمہ قرآنی فتبینوا کے اندر دو قراء تیں ہیں : نمبر ۱۔ فتثبتوا حمزہ رحمہ اللہ ،کسائی رحمہ اللہ ، اورخلف رحمہ اللہ نمبر۲۔ فتبینوا باقی سب قراء۔ [ النشر: ۲/۲۵۱] فتبینوا اس کا مادہ بین ہے اور یہ باب تفعّل ہے، اور دوسری قرا ت فتثبتواہے یہ بھی باب تفعّل سے ہے، لیکن اس کا مادہ ثبت ہے ۔ توجیہ قراء ات امام ابن خالویہ رحمہ اللہ (م۳۷۰ھ)لکھتے ہیں : ’’یقرأ بالیاء من التبیّن وبالتاء من التثبّت ۔والأمر بینھما قریبٌ لأنّ مَن تَبیّنَ فقد تثبّتَ ومن تثبّتَ فقد تَبیّنَ‘‘ [ الحجۃ لابن خالویۃ،ص ۶۳] ’’یا سے پڑھاجائے توتبین سے ،اور تاکے ساتھ تثبت سے ہے۔اورامران دونوں میں قریب ہے، کیونکہ جوشخص معاملہ کوکھول کرواضح کردے ،تواس کوثبوت بھی مل جاتاہے اورجوثبوت حاصل کرلے ،معاملہ اس پرواضح ہوجاتاہے۔‘‘ لیکن امام قیسی رحمہ اللہ (م۴۳۷ھ)کانقطہ نظراس سے مختلف ہے،لکھتے ہیں : ’’ولیس کل من تثبّت فی أمر تبیّنہ۔ قد یتثبّت ولا یتبیّن لہ الأمر فالتبیّن أعمّ من التثبت فی المعنی لاشتمالہ علی التثبّت‘‘ [الکشف:۱/۳۹۴،۳۹۵] اسی طرح امام ابن عطیہ رحمہ اللہ(م۵۴۶ھ) لکھتے ہیں : ’’وقال قوم تبیّنوا أبلغُ وأشدّ من تثبّتوا ؛لأنّ المتثبّت قد لا یتبیّن ۔‘‘[المحرّر الوجیز: ۲/۹۶] گویاان دونوں حضرات کے نزدیک تبیین عام ہے ،اس کے معنی میں ثبوت بھی پایاجاتاہے۔لیکن تثبت خاص ہے،اس میں تبین اور وضاحت ضروری نہیں ہے۔یعنی ایساہوسکتاہے کہ کسی معاملہ کاثبوت اوردلیل تومل جائے لیکن وہ واضح اورقابل فہم نہ ہو۔ معنی قراء ات اگرچہ یہ دونوں قراء تیں قریب المعنی تو ہیں لیکن ان دونوں کو سامنے رکھ کر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی معاملہ کی وضاحت اور تبیین میں تثبت یعنی تحمل اور اتنا ٹھہراؤ اختیار کیا جائے ،اور جلد بازی نہ کی جائے ،یہاں تک کہ حقیقت بالکل کھل کر واضح ہو جائے ۔ جیساکہ مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ (م۱۹۷۴ء)لکھتے ہیں : ’’ فتبینوا یہ ظاہر کررہا ہے کہ ایسی خبرپر اس وقت تک عمل جائز نہیں جب تک اس کی پوری وضاحت نہ کر لی جائے اور ایک قراءت میں یہ لفظ فتثبوا پڑھا گیا ہے۔ یعنی اس کی دلیل حاصل کرلو ۔‘‘ [معارف القرآن ،۶/۴۵۲]