کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 416
یہ کلمہ سورہ حدید میں بھی واقع ہوا ہے،اوراس میں بھی اسی نوعیت کااختلاف ہے۔ توجیہ قراء ات اما م قیسی رحمہ اللہ(م۴۳۷ھ) تشدید والی قراءت کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’وحجۃ من شدّد وحذفَ الألفَ أنّہ حملَہ علی الکثیر لانّ فعّلتُ( مشدد العین)بابہ تکثیر الفعل‘‘ ’’ جن قراء نے تفعیل سے پڑھاہے تو ان کے نزدیک یہ فعل کثرت پر دال ہے؛اس لئے کہ تفعیل کی خاصیت تکثیرفعل ہے۔‘‘ اور تخفیف والی قراءت یعنی مفاعلہ والی قرا ت کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’أنّ ضاعفتُ أکثر من ضعّـفتُ؛ لأن ضعّـفتُ معناہ مرّتان، وحُکِی أن العرب تقول: ضعّفتُ درھمک أی جعلتہ درھمین،وتقول ضاعفتہٗ أی جعلتہ أکثر من درھمین‘‘ [الکشف عن وجوہ القراءات السبع: ۱/۳۰۰] ’’صیغہ مفاعلہ ،صیغہ تفعیل سے بڑھ کرہے۔اس لئے کہ تفعیل والے صیغہ کامعنی ہوتاہے : دومرتبہ ،جیساکہ عرب کہتے ہیں :ضعّفتُ درھمَکَ میں نے تیرے درہم کودُوگناکردیا۔اورجب ضاعفتہٗ کہتے ہیں ،تومعنی ہوتاہے کہ میں نے تیرے درہم کو دوگناسے بھی زیادہ کردیا۔‘‘ معنی قراء ات امام ابن الجوزی رحمہ اللہ(م۵۹۷ھ) زاد المسیرمیں لکھتے ہیں : ’’معنی ضاعف وضعّف واحد، والمضاعفۃ الزیادۃ علی الشیء حتی یصیر مثلین أو أ کثر‘‘ [ زاد المسیر : ۱/۲۲۱] ’’ضاعف اور ضعّف کامعنی ایک ہی ہے،اورمضاعفہ کسی چیزپر زیادتی اوراتنے اضافہ کانام ہے،جس سے وہ دوگنی یازیادہ ہوجائے۔‘‘ تفسیر مظہری میں ہے : ’’اور تشدید اس میں تکثیر کے لیے ہے ۔۔۔اور مفاعلہ مبالغہ کے لیے ہے ۔‘‘ [تفسیر مظہری: ۱/۵۵۷] نتیجہ قراء ات خلاصہ یہ کہ ان دونوں قرا ء توں کوسامنے رکھ کر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ و ہ شخص جو اللہ کے لیے اس قرض والے کام کو اخلاص نیت کے ساتھ کرتا ہے اس کا اجر اور بدلہ کسی اعتبار سے بھی کم نہیں ہوگا۔ اس میں کثرت بھی دواعتبارسے ہوگی اور اس میں برکت بھی ہوگی ۔گویا یہ دونوں قراء تیں معنی کے اندر مزید وسعت پیدا کر رہی ہیں ۔ نمبر۲۔ فَتَبَیَّنُوْا / فَتَثَبَّتُوْا دونوں امرکے صیغے ہیں ،لیکن مادہ کافرق ہے۔ یہ کلمہ دومقامات پر آیاہے: (ا)﴿یٰٓـأیّھا الّذِیْنَ اٰمَنُوا إذَا ضَرَبْتُمْ فِی سَبیلِ اللّٰہِ فتَبیّنُوا وَلَا تقُوْلُوْا لِمَنْ ألقٰی إلَیْکُمَ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤمِناً ﴾ [النساء: ۹۴ ]