کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 414
’’ وھاتان القراء تان قد نزل بھما القرآن جمیعا ونقلتھا الأمّۃ تلقّیا من رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘[أحکام القرآن للجصاص:۲/ ۳۴۵ ،با ب غسل الر جلین] ’’ اور یہ دونوں قرا ء تیں ایسی ہیں کہ قرا ٓ ن ان دونوں کے ساتھ نازل ہوا ہے اور امت نے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہے ‘‘۔ اس اصول کے بارے میں امام جصاص رحمہ اللہ(م۳۷۰ھ) لکھتے ہیں : ’’وأیضا فإ ن القرا ء تین کالآیتین،فی إحداھما الغَسل وفی الأخریٰ المسحُ لاحتمالھما للمعنیین فلو وردت آ یتا ن إحداھما توجب الغَسل والأخری المسحَ لمَا جازَ ترکُ الغَسل إلی ا لمَسحِ ‘‘ [الجصاص:حوالہ مذکور،۲/۳۴۶] ’’ اور دو قراء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں ، ان میں سے ایک میں دھونے کا معنی ہے دوسر ی میں مسح کا معنی ہے، کیو نکہ یہ دونوں معانی کا احتمال رکھتی ہیں ۔ چنانچہ اگر بالفرض دو آیتیں نا زل ہو جا تیں ، ایک کا مو جب دھوناہو تا اور دوسری کا مسح ہو تا ،تو بھی دھونے کو مسح کے مقا بلہ میں تر ک کرنا جا ئز نہ ہو تا ۔ ‘‘ تفسیر قر طبی میں ہے : ’’ولیس من المتشابہ أن تقرا الآ یۃ بقرا ء تین ویکو ن الاسم محتملا أومجملا یحتا جُ إلیٰ تفسیر؛ لأن الواجب منہ قدرُ ما یتناوَلُہ الاسم أو جمیعہ ۔ والقراء تا ن کالآ یتین یجب العمَلُ بمُوجبِھما جمیعا ‘‘[الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:۴/۱۱] ’’ یہ با ت متشا بہ میں سے نہیں ہے کہ کو ئی آ یت دو قراء توں سے پڑھی گئی ہو ،اور اسم احتمال یا اجمال کی وجہ سے تفسیر کا محتاج ہو ؛ کیونکہ ثابت تو اس میں سے اسی قدر ہو گا جس کو اسم شامل ہو گا یا تمام ثا بت ہو گا ۔ اور دو قرا ء تیں دو آیتوں کی طرح ہیں ، دونوں کے موجب پر عمل کر نا ضروری ہے ۔ ‘‘ اسی طرح فتاوی ابن تیمیہ میں ہے: ’’وأما القراءۃ الأخری وھی قراءۃ من قرأ وأرجلِکم بالخفض فھی لا تخالف السنّۃ المتواترۃ؛ إذالقراء تان کالآیتین‘‘[کتب ورسائل ومجموعہ فتاوی فی الفقہ:۲۱/۱۳۱،کتاب الفقہ] ’’اوربہرحال دوسری قراءت جوکہ وارجلکم زیر کے ساتھ ہے،وہ سنت متواترہ کے مخالف نہیں ہے؛اس لئے کہ دوقراء تیں دوآیتوں کی طرح ہوتی ہیں ‘‘۔ تفسیر روح المعانی میں اس اُصول کو بڑ ی وضا حت سے بیان کیا گیاہے : ’’ ومن القواعد الأصولیۃ عند الطائفتین أن القراء تین المتواترتین إذا تعارضتا فی آیۃ واحدۃ فلھا حکم آیتین‘‘ [ روح المعانی ازآلو سی : ۶/ ۶۶] ’’ اُصولی قواعد میں سے ایک یہ ہے ( دونوں طا ئفوں کے نزدیک )کہ متواتر قرا ء تیں جب ایک آیت میں متعارض ہو جا ئیں تو ان کا حکم دو آیتوں کی طرح ہے ‘‘ ۔ دوقراء توں میں تعارض کاوقوع دوقراء توں میں کبھی تعارض واقع ہوجاناممکن ہے۔چنانچہ أصول السرخسی ج۲ ص۱۲ میں ہے: ’’یقع التعارض بین الآیتین،وبین القراء تین۔‘‘ [ فصل: بیان المعارضۃ بین النصوص] ’’دوآیتوں اوردوقراء توں کے درمیان تعارض واقع ہوتاہے۔‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ کی الاتقان ج۲ ص۳۰ میں ہے : ’’وتعارض القراء تین بمنزلۃ تعارض الآیتین۔‘‘