کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 413
امام ابن حاجب رحمہ اللہ(م۶۴۶ھ) لکھتے ہیں :
’’القراءات السبع متوا ترٌ لو لم تکن متواترۃً لکان بعض القرآن غیر متواترٍ کمَلِکِ ومٰلِکِ ونحوِھا، وتخصیص أحدھما تحکم باطل لاستوائِھما‘‘
[منتہی الوصول والامل فی علمی الاصول والجدل:ص ۳۴]
’’سات قراء تیں متواتر ہیں ۔اگر یہ متواتر نہ ہوں تو قرآن کا بعض حصہ غیر متواتر بن جائے گا ۔جیسے ملک اور مالک ،اور اس طرح کی اور قرا ء تیں ، اور ان دونوں میں سے کسی ایک کی تخصیص کرنا سینہ زوری ہے(باطل فیصلہ ہے) اس لئے کہ یہ دونوں برابر ہیں ‘‘۔
آسان الفاظ میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اگر روایت حفص قطعی طورپر قرآن ہے، توجن اَساتذہ سے روایت حفص منقول ہے انہی اساتذہ سے باقی قراء تیں بھی منقول ہیں ۔ تویہ کیسے ہوسکتاہے ایک ہی سند سے آنے والی ایک قراءت تومتواتر شمارہو اوردوسری ناقابل اعتبار بن جائے....؟
علامہ شوکانی رحمہ اللہ(م۱۲۵۰ھ)إرشادالفحول میں لکھتے ہیں :
’’والحاصل:أن ما اشتمل علیہ المصحف الشریف واتفق علیہ القراء المشہورون فھو قرآن،وما اختلفوا فیہ فإن احتَملَ رسمُ المصحف قراءۃ کلّ واحد من المختلفین مع مطابقتہا للوجہ الإعرابی والمعنی العربی،فھی قرآنٌ کلّھا،وإن احتمل بعضَہا دون بعض،فإن صحّ إسناد ما لم یحتملہ،وکانت موافقۃ للوجہ الإعرابی،والمعنی العربی، فھی الشاذّۃُ ولھا حکمُ أخبار الآحاد فی الدلالۃ علی مدلولِھا،وسوائٌ کانت من القراءات السبع أو من غیرھا وأمّا مالم یصحّ إسنادہ ممّالم یحتملہ الرسم فلیس بقرآنٍ ولا منزلٍ منزلۃ أخبار الآحاد‘‘ [إرشاد الفحول الی تحقیق الحق من علم الاصول: ۱/۸۲ ]
’’حاصل یہ کہ جس چیز پر مصحف ِ شریف مشتمل ہے اور مشہور قراء اس کے اوپر متفق ہیں تو وہ قرآن ہے۔ اورجس میں ان کا اختلاف ہوا ہے تو اس کی دو صورتیں ہیں :
(ا) مصحف کا رسم دونوں مختلف قراء توں کا احتمال رکھتا ہے ،اور یہ دونوں قراء تیں اعرابی وجہ اور معنی کے مطابق ہیں تو یہ سب بھی قرآن ہیں ۔
(ب) اگر مصحف کارسم ایک کااحتمال رکھے اور دوسری قراءت کا احتمال نہ رکھے، تو پھر دو صورتیں ہیں :
(أ) اس غیر محتمل قراءت کی اسناد صحیح ہے اور وہ اعرابی وجہ اور معنی عربی کے موافق ہے،تو پھر وہ شاذ قراءت ہے، اوراپنے مدلول پر دلالت کرنے میں اس کا حکم خبر واحد کی طرح ہے ۔ عام ہے کہ یہ قراءات سبعہ میں سے ہو یا نہ ہو۔
(ب)اور وہ قراءت جس کا رسم میں احتمال نہ ہو اور اس کی اسناد بھی صحیح نہ ہو تو پھر وہ قرآن نہیں ہے اور نہ ہی اس کوخبر واحد کے درجے میں رکھا جائے گا ۔‘‘
دوقراء تیں مثل دوآیتیں
جب کسی کلمہ قرآنی میں دومتواترقراء تیں ہوں تومفسرین وفقہاء کے نزدیک وہ دوآیات کی طرح ہیں ۔ان کی تفسیر اسی طرح کی جائے گی جس طرح ایک مسئلہ میں واردہ دو آیات کی تفسیرکی جاتی ہے۔چنانچہ أحکام القرآن للجصاص میں ہے: