کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 412
قاری رشید احمد تھانوی ٭
علم تفسیرپرقراءات کے اثرات
مقالہ نگار قاری رشید احمد تھانوی حفظہ اللہ نے چند سال قبل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد سے پروفیسر ڈاکٹر حمید اللہ عبدالقادر حفظہ اللہ (شعبہ علوم اسلامیہ، پنجاب یونیورسٹی، لاہور) کی زیر نگرانی ایم فل کی ڈگری حاصل کی۔ موصوف کے مقالہ کا عنوان تھا:’’تفسیر قرآن ِحکیم پر اختلاف ِقراءات کے اثرات کا ایک جائزہ‘‘۔ زیر نظر مضمون اسی مقالہ کے جامع خلاصہ پر مشتمل ہے، جس کی تلخیص مقالہ نگار نے خود کر کے ہمیں فراہم کی ہے۔ موضوع کی افادیت کے پیش نظر قارئین ِرُشد کے لئے اس تحریر کو ہم شائع کررہے ہیں ۔ اس اہم موضوع کے جملہ پہلوؤں پر تفصیلی مطالعہ کے سلسلہ میں شائقین کو اصل مقالہ کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ [ادارہ]
قرآن حکیم کی تفسیر کے سلسلہ میں قراءات کو ایک اہم ماخذکی حیثیت حاصل ہے،خاص طورپرمتواتر قراءات کونظراندازکرناقرآن کے ایک حصہ کونظراندازکرنے کے مترادف ہے۔نیز دومتواترقراء تیں دوآیتوں کی طرح ہیں ،ان میں سے کسی ایک قراءت کاانکارقرآن کی آیت کاانکارہے۔اگر دومتواترقراء توں میں تعارض آجائے توان میں سے ایک کوناسخ دوسری کومنسوخ قراردیناممکن نہیں ہے۔اس لئے کہ یہاں نزول میں تقدم یاتاخر معلوم کرنے کاکوئی ذریعہ نہیں ہے۔لہٰذا دونوں میں تطبیق کی صورت نکالناضروری ہوگا۔البتہ شاذقراءت اگرکسی متواتر قراءت کے معارض ہوتو اس کوردکردیاجائے گا۔قراء تیں زیادہ ہونا’اختلاف تعدد ‘ہے ۔ ’اختلاف تضاد‘نہیں ۔کوئی متواتر قراءت ایسی نہیں جس سے تضاد لازم آتاہو۔اگرظاہری تعارض ہوتووہ دراصل ’اختلاف تعدد‘ ہے،تاکہ اختصارکے ساتھ ایک ہی آیت کی دوقراء توں سے دومختلف اَحکام ثابت ہوسکیں ۔
تفسیر میں قراءات متواترہ کی قبولیت میں جمہور علماء میں سے کسی کا اختلاف نہیں ملتا۔ البتہ دومختلف المعنی قراء توں میں معنی کی تطبیق کے لحاظ سے ترجیح وغیرہ کارجحان پایاجاتاہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک قابل قبول معنی ہی کسی قراءت کے قبول ہونے کامعیارہے۔جیساکہ امام ابن جریرطبری رحمہ اللہ(م۳۱۰ھ)کاطرزعمل رہاہے،لیکن جمہور مفسرین نے اس طرزعمل کو ناپسندکیاہے۔بعض علماء نے امام طبری رحمہ اللہ کواس اعتبارسے معذور ماناہے کہ قراءاتِ متواترہ کی تدوین کازمانہ امام طبری رحمہ اللہ کے بعد کاہے ؛لہٰذا امام طبری رحمہ اللہ کے سامنے متواتر وغیرمتواترمیں امتیازکے وہ معیارات نہیں تھے ،جوائمہ قراءات نے متعین کئے تھے،لیکن بعد کے ادوار میں جب متواتراورغیرمتواترکافرق بالکل ظاہر ہوگیاتوپھر متواترکوشاذکے ساتھ خلط ملط کرکے رد کرنا یااس میں تشکیک پیداکرناعدم علم اورنا واقفیت کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
[1] استاد القراءات دارالعلوم الاسلامیہ ، کامران بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن ، لاہور