کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 411
حنفیہ نے نمازِ عصر کے اثبات میں پیش کی جانے والی ان قراءات کو اختیار نہیں کیا،کیونکہ یہ مشہور کی حد تک نہیں پہنچتیں بلکہ انہوں نے اس سلسلے میں وارد شدہ صحیح اَحادیث کو دلیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ بہرحال صلاۃ الوسطیٰ سے مراد نماز عصر ہی ہے جس کی تائید درج ذیل احادیث سے ہوتی ہے: ٭ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ احزاب کے دن فرمایا: ((ملأ اللّٰہ قبورہم وبیوتہم نارا کما شغلونا عن صلاۃ الوسطی حتی غابت الشمس وہی صلاۃ العصر)) [صحیح بخاري:۶۳۹۶] ’’اللہ تعالیٰ ان(کافر مکہ) کی قبروں اور گھروں کو اس طرح آگ سے بھر دے جس طرح انہوں نے ہمیں صلاۃ وسطیٰ سے مشغول کر دیا۔ حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا اور وہ(صلاۃ وسطیٰ) نماز عصرہے۔‘‘ ٭ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’الصلاۃ الوسطیٰ صلاۃ العصر‘‘[سنن ترمذی]’’صلاۃ وسطیٰ نماز عصر ہے۔‘‘ مالکیہ کا خیال ہے کہ اس سے مراد صبح کی نماز ہے۔ ان کی دلیل اسی آیت میں صلاۃ الوسطیٰ کے بعد مذکور الفاظ﴿وَقُوْمُوْا اللّٰہ قَانِتِیْنَ﴾ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس سے مراد قنوت ہے اور صحیح احادیث کی روشنی میں قنوت صرف صبح کی نماز میں ثابت ہے لہٰذا اس سے مراد فجر کی نماز ہی ہے۔ ذیل میں بیان کردہ نقطوں سے ان کے مؤقف کی مزید تائید ہوتی ہے: ٭ نماز فجر میں ایسے خصائص پائے جاتے ہیں جو دوسری نمازوں میں نہیں : ٭ اللہ تعالیٰ نے فجر کے قرآن کو مشہود بنایا ہے۔ فرمایا:﴿إِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْہُوْدًا﴾ [الاسراء:۷۸] ’’یعنی یہی وہ نماز ہے جس میں روز وشب کے ملائکہ حاضری دیتے ہیں ۔‘‘ ٭ ظہر وعصر کو جمع کیا جا سکتا ہے اور سی طرح مغرب وعشاء کو بھی، جبکہ فجر کی نماز میں ایسا نہیں ہے وہ انفرادی طور پر ہی اَدا کی جائے گی۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فجر کی نماز تمام نمازوں میں سے سب سے افضل ہے۔جس کا لازمی مطلب یہی ہے کہ صلاۃ وسطیٰ سے مراد فجر کی نماز کو لیا جائے۔ ٭ اس میں شک نہیں ہے کہ نماز فجرکو تاکیدی اعتبار سے انفرادی مقام حاصل ہے، اور یہی وہ نماز ہے جو عمومی طور پر سب سے مشکل تصور کی جاتی ہے، کیونکہ اس کا وقت سونے کے اوقات میں ہوتا ہے۔ اہل عرب نے تو فجر کے وقت نیند کو شہد سے تشبیہ دی ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد نماز ظہر ہے۔[مواہب الجلیل:۱/۴۸۹] بیان کردہ اَمثلہ سے اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ قراءاتِ شاذۃ اَحکام فقہیہ میں اثر پذیری رکھتی ہیں اور ان کی مدد سے بہت سے فقہی اَحکام مستنبط کیے جاتے ہیں ۔ ٭٭٭