کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 409
٭ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جو شخص مرض یا سفر کی وجہ سے رمضان کے روزے چھوڑ دے تو وہ ان کی کسی بھی وقت قضائی دے سکتا ہے اور قضاء میں مسلسل روزے رکھنا ضروری نہیں ہے،کیونکہ آیت﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ أخَرَ﴾میں تتابع کا حکم نہیں دیا گیا۔ [الأم:۲/۱۰۳] ٭ امام شافعی رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ’’العدۃ أن یأتی بعدد صوم لا ولاء‘‘ [الأم:۷/۶۶] ’’عدت عدد صیام میں ہے نہ کہ ان کو ملا کر رکھنے میں ۔‘‘ امام صاحب نے قراءت اُبی رضی اللہ عنہ کو دلیل نہیں بنایا، کیونکہ یہ قراءت منسوخ ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’جب آیت﴿فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ أخَرَ ﴾نازل ہوئی تو ’متتابعات‘ کو ساقط کر دیا گیا‘‘[مصنف عبدالرزاق:۴/۲۴۱، سنن دارقطنی:۲/۱۹۴]لیکن مطلق حکم باقی رہا۔ آپ کے قول کی تائید درج ذیل فرمان الہٰی سے ہوتی ہے: ﴿یُرِیْدُ اللّٰہ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ [البقرۃ:۱۸۵] ’’اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے نہ کہ سختی۔‘‘ مسلسل روزے رکھنے میں جہاں آسانی کی نفی ہوتی ہے وہاں تکلیف کا اثبات بھی ہوتا ہے۔جوآیت کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے۔ تفریق کے جواز پر دلالت کرنے والی اَحادیث ۱۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزوں کی قضا کے بارے میں فرمایا: ’’إن شاء فرق،وإن شاء تابع‘‘ [سنن الدارقطنی:۲/۱۹۲] چاہے تو تفریق کر لے اور اگر چاہے تو مسلسل روزے رکھ لے۔‘‘ ۲۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ قضاء رمضان سے متعلق دریافت کرنے پرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقضیہ تباعا،وإن فرقہ أجزأہ‘‘[ سنن الدار قطنی:۲/۱۹۲] ’’قضاء مسلسل دی جائے گی اگرچہ روزوں کو مختلف اوقات میں چھوڑا ہو۔‘‘ ۳۔ محمد بن منکدر رحمہ اللہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزوں کی قضائی دیتے ہوئے ان کے مابین تفریق کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ذلک إلیک،أرأیت لو کان علی أحدکم دین فقضی الدرہم والدرہمین ألم یکن قضاء؟ فاللّٰہ أحق أن یعفوا أو یغفر‘‘[سنن الدارقطنی:۲/۱۹۴،سنن بیہقی:۴/۲۵۹] ’’ اس کا انحصار تم پر ہے، جب تم پر کسی کا قرض ہوتا ہے تو وہ ایک ایک، دو دو درہم کر کے ادائیگی کرتا ہے تو کیا اس کی طرف سے اَدا نہیں ہوجاتا؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ زیادہ حق رکھتے ہیں کہ وہ معاف کریں اور بخش دیں ۔‘‘ اِن اَحادیث پر اگرچہ استنادی اعتبار سے بحث کی گئی ہے، لیکن یہ تمام مل کر اپنے مؤقف کو تقویت ضرور پہنچاتی ہیں ۔