کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 407
٭ مذکورہ آیت میں فتحہ والی قراءت صاحب حق کی جانب سے کاتب اورشہید کو تکلیف پہنچانے سے باز رکھتی ہے،جبکہ رفع والی قراءت کاتب اور شہید کی جانب سے صاحب حق کو ضرر پہنچانے سے روکتی ہے۔چونکہ دونوں قراءات ایک دوسرے کو ضرر پہنچانے سے باز رکھتی ہیں لہٰذا دونوں قراء توں میں کسی قسم کا کوئی تعارض باقی نہیں رہ جاتا۔ ٭ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَإِنْ کُنْتُمْ مَرْضٰی أوْ عَلٰی سَفَرٍ أوْ جَائَ أحَدٌ مِّنْکُمْ مِنَ الْغَائِطِ أوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَائَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَائً فَتَیَمَّمُوْا﴾ [النساء:۴۳] اس آیت کے کلمہ’لمستم‘ میں دو قراء تیں بیان کی گئی ہیں : ۱۔ الف کے بغیر ’لمستم‘۔یہ قراءت حمزہ، کسائی اور خلف رحمہم اللہ کی ہے۔ ۲۔ الف کے ساتھ’لامستم‘یہ قراءت قراء عشرہ میں سے دیگرقراء رحمہم اللہ کی ہے۔[اتخاف فضلاء البشر:۱/۵۱۳] پہلی قراءت کا معنی پہلی قراءۃ جو کہ بغیر الف کے پڑھی گئی ہے، اس کا معنی جماع کرنا ہے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ کہا جاتا ہے: ’نکحت‘ ’ناکحت‘نہیں کہا جاتا۔ دوسری قراءت کا معنی دوسری قراءت جو ثبوت الف کے ساتھ پڑھی گئی ہے،اس کا معنی ہے ہاتھ کے ساتھ چھونا، کیونکہ عورت مرد کو چھوتی ہے اور مرد عورت کو، اور باب مفاعلہ میں جانبین شریک ہوتے ہیں ۔[اعراب القراءات:۱/۱۳۴] اور جب لمس کی نسبت خواتین کی طرف ہو تویہ جماع سے کنایہ ہوتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’لمس جماع سے کنایہ ہے۔‘‘ لامستم‘میں مختلف قراءات کی بناء پر مسئلہ نقض وضو میں اختلاف کیا گیا ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ عورت کے ساتھ ایسی مباشرت جس میں جماع نہ ہو، وضو کو نہیں توڑتی۔ لیکن اگر ذکر منتشر ہوجائے تو ایسی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا۔[التنبیہ للشیرازی:ص۲۱۰] امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک مرد کا شہوت کے ساتھ عورت کو چھونا ناقض وضو ہے۔[مقدمات ابن رشد:۱/۶،الشرح الصغیر للدریر:۱/۵۴،۵۵] راجح مؤقف ہمارے نزدیک راجح مسلک یہی ہے کہ خاتون کو شہوت یا بغیر شہوت چھونا وضو کو نہیں توڑتا اور’لمستم‘اور ’لامستم‘دونوں قراء توں سے مراد جماع کرناہے۔اس کی تائید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’أن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبّل امرأۃ من نسائہ ثم خرج إلی الصلاۃ ولم یتوضأ‘‘ [سنن أبوداؤد:۱۷۹] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایک بیوی کو بوسہ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نکلے اور وضو نہ فرمایا۔‘‘