کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 406
راجح مؤقف
اس مسئلہ میں راجح مؤقف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا ہی نظر آتا ہے کہ بیت اللہ الحرام میں اِقامت حدود اور خون بہانا جائز نہیں ہے الا یہ کہ اس کے لیے مجبور کر دیاجائے۔
٭ فرمان الٰہی ہے:﴿وَلَا یُضَارَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَہِیْدٌ﴾[البقرۃ: ۲۸۲]
قراء عشرہء رحمہم اللہ نے اس آیت کے لفظ ’یضار‘ میں مختلف قراء تیں بیان کی ہیں ۔ ابن کثیر، یعقوب اور ابو عمرو بصری رحمہم اللہ ’راء ‘ کے ضمہ کے ساتھ’یضارُ‘ جبکہ باقی تمام قراء رحمہم اللہ ’راء ‘ کے فتحہ کے ساتھ ’یضارَ‘پڑھتے ہیں ۔
البتہ ’یضار‘ میں ضاد اور راء کے درمیان الف کومد کے ساتھ پڑھنے میں کوئی اختلاف نہیں کیا گیا اور یہ التقاء ساکنین کی وجہ سے ہے۔[النشر:۲۲۸]
رفع والی قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں موجود’ لا‘ نافیہ ہے اوراس کے بعد مضارع مرفوع ہے اور فتحہ والی قراءت سے معلوم ہوتا ہے کہ فعل مضارع لائے نہی کے بعد مجزوم ہے اور اجتماع ساکنین کی وجہ سے فتحہ دیا گیا ہے۔ فتحہ والی قراءت فائدہ دیتی ہے کہ یہاں ’لا‘ نافیہ ہے اور لائے نفی لکھنے والے اور گواہ دونوں کو صاحب حق کی جانب سے ضرر کی نفی کرتی ہے اور رفع والی قراء ت، لکھنے والے اور گواہ کو صاحب حق کو ضرر پہنچانے سے روکتی ہے۔
٭ شافعیہ کہتے ہیں :
’’ومن مضارۃ الشہید لصاحب الحق القعود عن الشہادۃ ولیس فیہا إلا شاہد أن فعلیہما فرض أدائھا وترک مضارۃ صاحب الحق بالامتناع من إقامتھا،وکذلک علی الکاتب أن یکتب إذا لم یوجدغیرہ‘‘ [جامع لأحکام القرآن للقرطبی:۱/۴۰۶،۴۰۷]
’’گواہ صاحب حق کو اس طرح ضرر پہنچا سکتا ہے کہ وہ بیٹھا رہے اور گواہی دینے کے لیے نہ جائے لہٰذا اسے صاحب حق کو نقصان سے بچانے کے لیے گواہی دینا فرض ہے ایسے ہی کاتب پر لکھنا فرض ہے جب کوئی دوسرا کاتب موجود نہ ہو۔‘‘
بایں ہمہ اللہ تعالیٰ نے کتمانِ شہادت سے سختی سے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَکْتُمُوْا الشَّہَادَۃَ وَمَنْ یَّکْتُمْہَا فَإنَّہُ اٰثِمٌ قَلْبُہُ﴾ [البقرۃ: ۳۸۲]
’’ اور شہادت کو ہرگز نہ چھپاؤ اور شہادت کو چھپاتا ہے اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے۔‘‘
کتاب المغنی میں ہے:
’’ فرمان الٰہی﴿وَلَا یُضَارَّ کَاتِبٌ وَّلَا شَہِیْدٌ﴾ میں موجود ’یضار‘کو رفع اور فتحہ دونوں طرح پڑھا گیا ہے۔ جنہوں نے اسے رفع کے ساتھ پڑھا ہے انہوں نے اسے خبر شمار کیا ہے، اوریہاں خبر دو معنوں پر مشتمل ہے:
۱۔ یہ کہ کاتب فاعل ہو، یعنی کاتب اور شہید ضرر نہ پہنچائیں ۔ وہ اس طرح کہ جب اس کو بلایا جائے تو حاضر نہ ہو یا کاتب ایسی چیز لکھ دے جو لکھوائی نہ گئی ہو یا گواہ ایسی گواہی دے جس کا اس سے تقاضا نہ کیا گیا ہو۔
۲۔ یہ کہ’یضار‘ فعل ما لم یسم فاعلہ ہو، ایسی صورت میں اس کا معنی یہ ہوگا کہ کاتب اور گواہ کو تکلیف میں مبتلا نہ کیا جائے کہ ہر وقت ان کو اسی کام میں مشغول رکھا جائے جس سے ان کی زندگی کے دیگر معمولات معطل ہو جائیں ـ۔ [المغنی لابن قدامۃ:۹/۱۴۷]