کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 405
فقہاء کرام کا اس پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسجد حرام میں قتال سے منع فرمایا ہے اور کسی بھی مسلم کے لیے روا نہیں ہے کہ وہ کسی کافر سے مسجد حرام میں لڑائی کرے إلا یہ کہ کافر لڑائی کی ابتدا کرے ۔ ایسی حالت میں مسلمان اپنا دفاع کرنے والا ہوگا۔
پہلی قراءت تو بالکل واضح ہے ۔ البتہ جو اختلاف پیدا ہوا ہے وہ بیت اللہ میں حدود وقصاص کو نافذ کرنے کے مسئلہ میں ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ وشافعی رحمہ اللہ نے عمومی طورپر ہر زمان ومکان میں حدود وقصاص کو نافذ کرنے کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ بیت اللہ میں حدود کو نافذ نہیں کیاجاسکتا۔
امام مالک رحمہ اللہ وشافعی رحمہ اللہ کی دلیل :
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پرخود تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتارا تو ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا: ابن خطل کعبہ کے پردوں کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے قتل کردو‘‘ [صحیح البخاري:۱۸۴۵]
فقہاء کرام مذکورہ فرمان سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کعبہ کے پردوں سے لپٹے ہوئے شخص کے قتل کا حکم دینا اس پر و اضح دلالت ہے کہ جو بھی مشرک قتل کا مستحق ہوگا اسے قتل کیا جائے گا،چاہے وہ کسی بھی جگہ پر موجود ہو۔علاوہ ازیں حدود حرم اِقامت حدکو نہیں روکتی اور نہ ہی حد کو وقت مقررہ سے مؤخر ہی کیا جاسکتا ہے۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ نے قرآن وسنت سے مختلف دلائل دیتے ہوئے بیت اللہ الحرام میں قتال اور نفاذ حدود کو ناجائز قرار دیا ہے۔ان کے دلائل ملاحظہ ہوں :
قرآن سے دلیل:
﴿وَمَنْ دَخَلَہُ کَانَ اٰمِنًا﴾[آل عمران:۹۷]
اس آیت سے استدلال یہ ہے کہ اس میں بیت اللہ الحرام میں داخل ہونے والے کو جان ومال کا تحفظ عطا کیا گیا
ہے لہٰذا بیت اللہ میں کسی پر کسی قسم کی زیادتی جائز نہیں ہے۔
سنت سے دلیل:
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((فلا یحل لامری ء یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر أن یسفک بہا دماً)) [صحیح البخاري:۱۰۴]
’’ جو شخص اللہ تعالیٰ اوریوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ یہاں خون بہائے۔‘‘
احناف اور حنابلہ کا کہنا ہے کہ مالکیہ اور شافعیہ کی ذکرکردہ دلیل زمان ومکان کے عموم پر دلالت نہیں کرتی(یعنی یہ عمومی دلیل نہیں ہے)بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے ساتھ مقید ہوجاتی ہے جس میں آپ نے بیت اللہ میں خون بہانے سے منع فرمایا ہے۔مزید برآں فتح مکہ کا دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حلال تھا، حلت کا وقت صبح سے عصر تک جاری رہا اور ابن خطل کو اسی دوران واصل جہنم کیا گیا۔ [سبل السلام للصنعانی:۴/۷۲،۷۳]