کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 404
لہٰذا یہ حکم چونکہ دلیل قطعی سے معلوم ہو رہا ہے اس لیے فرض ہے۔اس کی تائید نیل الأوطار کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے : ’’فتحہ والی قراءت خبر پر دلالت کرتی ہے اور کسرہ والی روایت اَمر پر اور اَمر یہاں وجوب کاتقاضا کررہا ہے۔‘‘ علماء کے مابین اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ مقام اِبراہیم سے مراد کیا ہے۔فتح الباری میں ہے:’’خانہ کعبہ کی تمام جہات میں نماز ادا کرنے پر اجماع ہے۔‘‘ جوکہ عدم تخصیص پر دلالت کرتاہے ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مقام ابراہیم سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشانات ہیں ، کیونکہ جمیع جہات تب ہی کہیں گے جب ایک جہت مقام ابراہیم ہوگی۔ ٭ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’المراد بمقام ابراہیم: الحرم کلہ، والأول أصح‘‘[فتح الباري:۳/۵۵] ’’مقام ابراہیم سے مراد سارے کا سارا حرم ہے اور اول زیادہ صحیح ہے۔‘‘ راحج مؤقف درج ذیل وجوہ کی بناء پر ان رکعات کو سنت قرار دینے والوں کے مؤقف کو راجح قرار دیا جائے گا: ïکسی قرینے کی عدم موجودگی میں اَمر وجوب کا تقاضا کرتا ہے، لیکن یہاں قرینہ موجود ہے۔ وہ یہ کہ اعرابی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے علاوہ باقی نوافل ہیں ۔‘‘ ٭ اکثر فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس نماز اَدا کرنا سنت ہے۔ انہوں نے دونوں قراء توں کو جمع کر کے دونوں پر عمل کو ترجیح دی ہے۔ ٭ فرمان الٰہی ہے: ﴿....وَلَا تُقٰتِلُوہُمْ عِنْدَ المَسْجِدِ الحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِن قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذٰلِکَ جَزَائُ الکَافِرِینَ﴾ [البقرۃ: ۱۹۱] اس آیت قرآنیہ میں دو متواتر قراءات بیان کی گئی ہیں : ۱۔ ان الفاظ میں ثبوت الف کے ساتھ:’ تقاتلوہم،یقاتلوکم،قاتلوکم‘یہ قراءت جمہور قراء کی ہے۔ ۲۔ دوسری قراءت مذکورہ تینوں افعال میں حذف الف کے ساتھ ہے۔ یہ قراءۃ امام حمزہ، کسائی اور خلف البزار رحمہم اللہ کی ہے۔ قاتل‘ثبوت الف کے ساتھ ’فاعل‘ کے وزن پر باب مفاعلۃ سے ہے، جبکہ’قتل‘ یہ ماضی ’فعل ‘ ’نصر‘ کے وزن پر ہے۔ پہلی قراءت لڑائی کا سبب بننے سے روکتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام کو لڑائی کی ابتداء سے منع فرمایا ہے، لیکن اگردشمن لڑائی اورجنگ وجدل کی ابتداء کرے تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ لڑنا واجب ہوگا اگرچہ مسجد حرام کے قریب ہی کیوں نہ ہو۔ دوسری قراءت جو کہ حذف الف کے ساتھ ہے وہ مشرکین کے حرم میں پناہ لینے پر انہیں قتل سے منع کرنے پر دلالت کرتی ہے،الا یہ کہ مشرکین بعض مسلمانوں کو حرم میں قتل کر دیں ۔