کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 403
دوسری قراءت امر کا فائدہ دے رہی ہے اورا مر کسی بھی چیز کے وجوب کا تقاضا کرتاہے۔اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ الحرام کا طواف کیاتو مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعات اَدا فرمائیں ۔ مزید فرمایا:
((لتأخذوا مناسککم)) [صحیح مسلم:۳۱۳۷] ’’مجھ سے مناسک حج سیکھ لو۔‘‘
فقہاء کرام نے اس آیت میں مختلف قراءات کی بناء پر مختلف استدلالات کیے ہیں جنہوں نے اسے صیغۂ خبر کے طور پر لیا ہے ان کا کہنا ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس رکعات ادا کرناسنت ہے۔اس کے قائلین امام مالک رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ اور ایک قول کے مطابق امام شافعی رحمہ اللہ ہیں ۔ [المغنی لابن قدامۃ: ۳/۳۸۴]
ان کا استدلال اعرابی کے اس قصہ سے بھی ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کیامجھ پر اس کے علاوہ بھی کوئی چیز فرض ہے؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابا فرمایا:
((لا،إلا أن تطوع)) [صحیح البخاري:۴۶]’’نہیں ، اس کے سوا نوافل ہیں ۔‘‘
٭ علاوہ ازیں ان رکعات کی کوئی جماعت بھی مشروع نہیں ہے۔ لہٰذا انہیں واجب نہیں بلکہ نفل ہی شمار کیا جائے گا۔
دوسری قراءۃ کے قائلین کے دلائل:
جنہوں نے اسے’خا‘ کے کسر ہ کے ساتھ ’واتَّخِذُوا‘پڑھا ہے انہوں نے اسے صیغۂ امر کے معنی میں لیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ مقام ابراہیم کے قریب نوافل ادا کرنا واجب ہے، کیونکہ اَمر وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔یہ قول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔[شرح فتح القدیر:۶/۴۵۶]
فقہاء کرام اس پر تومتفق ہیں کہ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعات اَدا کرنا مشروع ہے۔ محل اختلاف یہ ہے کہ یہاں نماز اَدا کرنا سنت ہے یا واجب؟یہ دونوں قراء تیں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ مقام ابراہیم کو جائے نماز بنانا ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے تھا اور وہ پتھر جس پر ابراہیم علیہ السلام کھڑے ہوئے تھے وہ نماز کے لیے مخصوص نہ تھا۔
یہ قراءت اس آیت کو ایک اور معنی دیتی ہے اور وہ یہ کہ یہ خطاب مسلمانوں کو متوجہ کرنے کے لیے ہے۔ پھر ﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاہِیْمَ مُصَلًّی﴾....﴿وَإِذْ جَعَلْنَا البَیْتَ مَثَابَۃً لِلنَّاسِ وَأَمْنا﴾اور ﴿وَعَہِدْنَا إِلٰی إِبْرَاہِیْمَ﴾کے مابین جملہ معترضہ ہوگا۔
لہٰذا پھر اس بات کا بھی احتمال ہے کہ نماز بعد میں مشروع ہوئی پہلے مشروع نہیں تھی۔
٭ مالکیہ نے دونوں قراء توں میں ایک سبیل یہ نکالی ہے کہ
’’إن الصلاۃ خلف المقام تکون واجبۃ فی الطواف الواجب،وتکون مندوبۃ فی الطواف المندوب‘‘[شرح مختصر خلیل للزرقانی: ۲/۳۷۴]
’’مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کرنا فرضی طواف میں فرض ہے جبکہ نفلی طواف میں نفل ہوگا۔‘‘
٭ احناف کے نزدیک مقام ابراہیم کے پاس دورکعات اَدا کرنا واجب ہے، جو کہ فرض اور واجب کے مابین فرق کرتے ہیں ۔ان کاکہنا ہے:
’’الفرض ما ثبت بدلیل قطعی،والواجب ما ثبت بدلیل ظنی‘‘[بدائع الصنائع :۳/۱۱۴۵]
’’فرض وہ ہے جو دلیل قطعی سے ثابت ہو اور واجب وہ ہے جو دلیل ظنی سے ثابت ہو۔‘‘