کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 402
[أحکام القرآن للجصاص: ۱/۳۳۶] جبکہ جمہور مالکیہ،شافعیہ اور حنابلہ نے تشدید والی قراءت سے استدلال کرتے ہوئے انقطاع دم کے بعد غسل سے قبل بیوی کے ساتھ جماع کو ناجائز قرار دیا ہے۔ جمہور کے مؤقف کی دو وجوہ سے تائید ہوتی ہے: پہلی وجہ: انقطاع دم، یہ ان کی تشدید والی قراءۃ ’یَطَّہَرنَ‘کی تفسیرہے۔ دوسری وجہ: پانی سے غسل کرنا،انہوں نے یہ تفسیر ’فَإِذا تَطَّہرن‘ سے لی ہے،کیونکہ اس کو دوبارہ اس لیے لائے ہیں تاکہ طہارت کا حقیقی مقصد حاصل ہوجائے اور وہ تب ہی ہوگا جب غسل کر لیا جائے۔ ہم اس ضمن میں ایک مثال پیش کرتے ہیں جس کی مدد سے اس کی مزید وضاحت ہوجائے گی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿وَابْتَلُوْا الْیَتٰمَی حَتّٰی إِذَا بَلَغُوْا النِّکَاحَ فَإِنْ اٰنَسْتُمْ مِنْہُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْا إِلَیْہِمْ أمْوَالَہُمْ﴾[النساء: ۶] مذکورہ آیت میں یتیموں کو ان کے اَموال لوٹانے کو دوشرطوں کے ساتھ معلق کیا گیا ہے: ۱۔ بلوغت اور ۲۔ سن تمیز کو پہنچنا یعنی جس طرح یتیموں کو ان کے اَموال لوٹانے کے لیے ان دوشرطوں کا پایا جانا ضروری ہے بالکل اسی طرح بیوی کے ساتھ قربت اختیار کرنے کے لیے انقطاع دم کے بعد غسل کر لینا ضروری ہے۔ ذکر کردہ خیالات وآراء کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جمہور کا مؤقف قوی دلائل سے مزین ہونے کی بناء پر راجح ہے۔ آیت﴿ إِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ التَّوَابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَہِّرِیْنَ﴾[البقرۃ: ۲۲۲] میں ظاہرالفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ طہارت سے مراد طہارت حسی ہے اور طہارت حسی پانی کے ساتھ غسل کے علاوہ حاصل نہیں ہوسکتی۔ ï حق بات یہی ہے کہ تعارض سے بچتے ہوئے دونوں قراء توں پر عمل کو ترجیح دی جائے۔ ٭فرمان الٰہی ہے: ﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مُقَامِ اِبْراہِیمَ مُصَلّٰی﴾[البقرۃ: ۱۲۵] اس آیت کے لفظ ’واتخذوا‘میں دو متواتر قراءات بیان کی گئی ہیں ۔ ۱۔ خاء کے فتحہ کے ساتھ’واتَّخَذُوا‘۔فعل ماضی بمعنی خبر۔ ۲۔ خاء کے کسرہ کے ساتھ ’واتَّخِذُوا‘فعل امر بمعنی انشاء۔ پہلی قراءۃ کے قائلین کے دلائل: اس قراءت کو پڑھنے والے امام نافع رحمہ اللہ اور ابن عامر رحمہ اللہ ہیں ۔ان کا کہناہے کہ یہ اولاد ابراہیم علیہ السلام کی خبر ہے کہ انہوں نے مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا لیا اور ﴿وَإِذْ جَعَلْنَا البَیْتَ مَثَابَۃً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا﴾ کا عطف ﴿وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ اِبْراہِیمَ مُصَلّٰی﴾ پر ہو رہا ہے اور ان آیات میں مذکور’ جعلنا‘ اور ’ واتخذوا‘ فعل ماضی ہیں اور ان دونوں میں فعل ماضی خبر کا معنی دے رہا ہے۔[حجۃ القراءات لابن زنجلۃ: ص۱۱۳] یہ قراءت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی اولادنے مقام ابراہیم کو جائے نماز بنا یا۔