کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 400
۱۔ قراءات شاذہ حجت ہیں اور ان پر عمل کرنا جائز ہے۔ ۲۔ قراءات شاذہحجت نہیں ہیں اور ان پر عمل کرنا بھی جائز نہیں ۔ پہلے مذہب کے قائلین: ٭ احناف [فواتح الرحموت شرح مسلّم الثبوت للأنصاری: ۲/۱۶] ٭ حنابلہ اسی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ [روضۃ الناظر: ۱/۸۱] ٭ امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مذہب بیان کیا گیا ہے۔[شرح الکوکب المنیر للفتوحی: ۲۰/۱۴۰] ٭ جمہور شافعیہ جن میں ابوحامد،ماوردی، ابن یونس، رافعی، ابن سبکی اور اسنوی رحمہم اللہ شامل ہیں ،اور متاخرین شافعیہ نے بھی یہی مذہب اختیار کیاہے۔ ٭ کمال بن ہمام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ القراءۃ الشاذۃ حجۃ ظنیۃ خلافا للشافعی‘‘ [کتاب التحریر مع شرحیہ: ۳/۹] ’’ امام شافعی رحمہ اللہ کے(مذہب کے ) برخلاف قراءۃ شاذۃ ظنی حجت ہیں ۔ ‘‘ ٭ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں : ’’والصحیح أنہ حجۃ،لأنہ یخبر۔ أی الصحابی الذی روی القراءۃ الشاذۃ ۔ أنہ سمع من النبی فإن لم یکن قرآن فہو خبر‘‘ [روضۃ الناظر: ۱/۱۸۱] ’’صحیح یہ ہے کہ قراءاتِ شاذۃ حجت ہیں ،کیونکہ یہ خبرہیں ۔ یعنی وہ صحابی جو قراءاتِ شاذۃ بیان کررہا ہے اس نے ضرور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے۔ اگر وہ قرآن نہیں تو کم ازکم خبر تو ضرور ہوگی۔‘‘ ٭ ابن سبکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ أما إجراؤہ مجری الأخبار الآحاد فی الاحتجاج فہو صحیح‘‘ [جمع الجوامع: ۲۳۱] ’’قراءت شاذہ کو دلیل میں خبر واحد کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘ ٭ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ اس کی وضاحت ان الفاظ میں کرتے ہیں : ’’والقراءۃ الشاذۃ یحتج بھا فی الأحکام کخبر الواحد علی المعتمد‘‘ [تحفۃ المحتاج بشرح المنہاج: ۸/۲۸۹] ’’احکام میں قراءۃ شاذۃ کو بطورِ دلیل اختیار کیا جائے گاجیسا کہ خبر واحد پر اعتماد کیا جاتا ہے۔‘‘ دوسرے مذہب کے قائلین: ٭ امام مالک رحمہ اللہ [مختصر ابن الحاجب مع شرحیۃ العضن: ۲/۲۱] ٭ ایک قول کے مطابق امام شافعی اور آپ کے بعض اصحاب کا یہی مؤقف ہے۔[الأم للشافعی: ۷/۶۶] ٭ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی یہی مؤقف روایت کیا گیاہے۔ [اُصول مذہب امام احمد:ص۱۸۶] ٭ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے۔[ الأحکام فی أصول الاحکام:۴/۱۷۰،۱۷۱] راجح مؤقف ان دونوں مذاہب کے مطالعے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ