کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 40
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھے اور پھر ان مصاحف کو مختلف علاقوں میں پھیلادیا۔ چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں لوگوں کاکہنا کہ انہوں نے سوائے حفص کی قراءت کے باقی سب قراءات ختم کردیں ، بالکل درست نہیں ہے اور یہ وہی لوگ کہہ سکتے ہیں جن کو اس کی اصل کاپتہ نہیں ہے۔ اگر آپ مراکش میں چلے جائیں وہاں ورش کی قراءت ہے ۔لہٰذا یہ قراءات آج بھی محفوظ ہیں ۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے مشرق میں صرف حفص کی قراءت مروج ہے۔ جہاں تک سبعۃ احرف کا تعلق ہے تو وہ اپنی وسعت کے ساتھ جس طرح قرآن مجید میں پہلے موجود تھے، اسی طرح قرآن مجید میں اب بھی موجود ہیں اور تاقیامت اسی طرح رہیں گے۔ ان وجوہ و حروف کو قرآن سے نکالنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے اور جمہور اُمت اس بات پر متفق ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا تھا اور وہ آج بھی اسی طرح قائم و دائم ہیں جس کی تائید ائمہ کے ان اقوال سے ہوتی ہے جو آگے ذکر کئے جارہے ہیں ۔ ۸۔ جیساکہ ہم ذکرکرآئے ہیں کہ سبعہ احرف کی مراد سے متعلق متعدد اقوال ہیں ۔ ان میں سے ائمہ و ماہرین قراءت نے جن اقوال کو راجح قرار دیا وہ دو ہیں۔ ۱۔ لغات ۲۔ وجوہ اگرچہ محققین آئمہ قراءات نے ان دو اقوال میں سے سات وجوہ کے قول کو سبعہ احرف کی تعین کے قریب تر قرار دیا ہے جو کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ کے بعد امام ابو الفضل رازی رحمہ اللہ نے ان وجوہ کو یوں بیان کیاہے: ’’الکلام لا یخرج عن سبعۃ أوجہ فی الاختلاف،الأول: اختلاف الأسماء من إفراد وتثنیۃ وجمع أو تذکیر وتأنیث،الثانی:اختلاف تصریف الأفعال من ماضی ومضارع وأمر، الثالث: وجوہ الإعراب،الرابع: النقص والزیادۃ،الخامس: التقدیم والتأخیر،السادس: الإبدال،السابع: اختلاف اللغات کالفتح والإمالۃ والترقیق والتفخیم والإدغام والإظہار [فتح الباري:۹/۲۹] ’’قراءات کا اختلاف سات وجوہ میں منحصر ہے: ۱۔ اختلاف اسماء: جس میں مفرد، تثنیہ و جمع اور تذکیر و تانیث کا اختلاف ہے۔[1] ۲۔ اختلاف ِافعال: کسی قراءت میں ماضی کا صیغہ، کسی میں مضارع اور کسی میں امر۔[2] ۳۔ وجوہ اعراب کا اختلاف: جس میں اعراب یا حرکات مختلف قراء توں میں مختلف ہوں۔[3] ۴۔ الفاظ کی کمی بیشی کا اختلاف: ایک قراءت میں کوئی لفظ کم اور دوسری میں زیادہ۔ [4] ۵۔ تقدیم و تاخیر کا اختلاف: قراءت میں کوئی لفظ مقدم اور دوسری میں مؤخر ہو۔[5] ۶۔ اختلاف ابدال:ایک کلمہ کو دوسرے کلمہ کی جگہ بدل دینا۔[6] ۷۔ لہجات کا اختلاف: جس میں فتحہ، تفخیم، ترقیق، اِمالہ، قصر، اظہار اور ادغام کا اختلاف ہو۔‘‘ [7]
[1] جیسے تمت کلمۃ ربک،دوسری قراء ت میں تمت کلمات ربک نیز وما ربک بغافل عما یعملون کو تعملون کی قراء ت سے پڑھا گیا۔ اس طرح فدیۃ طعام مسکین کو مساکین اور وکتبہٖ ورسلہٖ کو رسالتہ پڑھا گیاہے۔ لا یقبل منھا شفاعۃ میں یقبل مذکر کو مونث کے صیغہ تقبل سے بھی پڑھا گیاہے۔ [2] جیسے ومن تطوع خیرا کو ومن یطوع خیرا اور قال کم لبثتم کوقل کم لبثتم،قال اعلم أن اللّٰہ علی کل شيء قدیرکو قال إعلم أن اللّٰہ علی کل شیئٍ قدیرٌ [3] مثلاً ولاتسئل عن أصحاب الجحیم کو ولا تسئل عن أصحاب الجحیم،اسی طرح إلا أن تکون تجارۃکو إلا أن تکون تجارۃ اور اللّٰہ الذی لہ ما فی السموٰات والارض کو اللّٰہ الذی لہ ما فی السموٰات والارض اور فی لوح محفوظ کو فی لوح محفوظ پڑھا گیا ہے [4] مثلاً وسارعوا إلی مغفرۃ کو سارعوا إلی مغفرۃ اور وما عملتہ أیدیھم کو وما عملت أیدیھم اور فإن اللّٰہ ھو الغنی الحمید کو فإن اللّٰہ الغنی الحمید پڑھاگیا ہے۔ [5] وجآء ت سکرۃ الموت بالحق کو جاء ت سکرۃ الحق بالموت [6] فتبینوا کو فتنبتوا اور کیف ننشزھا کو کیف ننشرھا، اسی طرح ھنالک تبلوا کل نفس کو ھنالک تتلوا کل نفس [7] خطوات کو خطوات،بیوت کو بیوت،خفیۃ کو خفیۃ،یحسب کو یحسب،یعزب کو یعزب