کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 399
’’کان أبو جعفر رجلا صالحا یقریٔ الناس فی المدینۃ‘‘ [غایۃ النہایۃ لابن جزری: ۲/۳۴۲]
’’ابوجعفر رحمہ اللہ صالح آدمی تھے اور مدینہ میں لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔‘‘
٭ اسی طرح امام نافع رحمہ اللہ کی قراءت کے بارے میں آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’قراءۃ أہل المدینۃ سنۃ‘‘[أحسن الاثر:ص۱۲] ’’اہل مدینہ کی قراءت سنت ہے۔‘‘
آپ رحمہ اللہ سے مزید دریافت کیا گیا کہ کیااس سے مراد امام نافع رحمہ اللہ کی قراءۃ ہے توآپ نے اِثبات میں جواب دیااور جب امام موصوف سے نماز کے شروع میں بسملہ جہر سے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’سلو نافعا فکل علم یسأل عنہ أہلہ،ونافع إمام الناس فی القراءۃ‘‘[لطائف الارشادات: ۱/۹۴]
’’یہ سوال امام نافع رحمہ اللہ سے کرو، کیونکہ ہر علم سے متعلق اس کے اہل سے سوال کرنا چاہیے اور نافع قراءۃ میں لوگوں کے امام ہیں ۔‘‘
٭ امام شافعی رحمہ اللہ امام نافع کی قراءت کے بارے میں فرماتے ہیں :
’’قراءۃ نافع سنۃ‘‘ [لطائف الارشادات: ۱/۹۴]’’امام نافع کی قراءت سنت ہے۔‘‘
٭ جب امام احمد رحمہ اللہ سے آپ کی پسندیدہ قراءت کے بارے میں دریافت کیا گیاتوآپ نے اہل مدینہ یعنی امام نافع رحمہ اللہ کی قراءت کی طرف اِشارہ فرمایا۔
سابقہ بحث کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ فقہاء کرام متعدد قراءات کا خصوصی التزام کیا کرتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ وہ قراءت متواترہ اور غیرمتواترہ، قراءت مقبولہ اور غیر مقبولہ کے مابین خوب تمیز روا رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔فقہاء کرام دو مختلف المعنی متواتر قراءات پر عمل کو واجب قرار دیتے ہیں اوران کے نزدیک ان دونوں میں سے ایک کو دوسری پر اولویت حاصل نہیں ہے۔ احکام القرآن میں ہے:
’’والقرا ء تان کالآیتین یجب العمل بہما‘‘ [أحکام القرآن لابن العربی: ۱/۱۴۹]
’’دو قراءات دو آیات کی طرح ہیں ان دونوں پر عمل کرنا واجب ہے۔‘‘
٭ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ قراءاتِ قرآنیہ کے متعلق فرماتے ہیں :
’’قراءات کی معرفت اور ان کو حفظ کرناایسی سنت ہے جس کی اتباع کی گئی ہے اور بعد میں آنے والوں نے اسے پہلوؤں سے اَخذ کیا ہے۔‘‘[مجموع الفتاوی:۱۳/۴۰۴]
علاوہ ازیں شیخ موصوف رحمہ اللہ قراء عشرہ سے متعلق علماء کرام کا مؤقف بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
’’علماء کرام میں سے کسی ایک نے بھی قراءت عشرہ کا انکار نہیں کیا،لیکن سوائے اس کے جو علم قراءت سے ناواقف ہے یا جس تک قراءاتِ قرآنیہ پہنچ نہیں سکیں ۔
اس کے بعد مزید لکھتے ہیں کہ
’’اگر کوئی شخص مغربی بلاد اِسلامیہ میں سکونت پذیر ہے اور اس تک بعض قراءات نہیں پہنچیں تو وہ ایسی قراءات پڑھنے سے گریز کرے جن سے وہ نابلد ہے۔‘‘ [مجموع فتاوی: ۱۳/۳۹۳،۳۹۴]
قراءاتِ شاذہ سے متعلق فقہاء کی آراء
قراءاتِ شاذہ کو بطورِ دلیل اختیار کرنے میں فقہاء کرام کے دو مذاہب ہیں :