کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 398
اعجاز ِقرآنی کے متنوع پہلو ڈاکٹر نبیل بن محمد ابراہیم ٭ مترجم: محمدعمران اسلم ٭ ٭ اَحکام فقہ میں قراءاتِ قرآنیہ کے اَثرات جس طرح اس میں کسی بھی شخص کی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ قراءاتِ قرآنیہ(متواترہ ہوں یا شاذہ) شرعی اَحکام ومسائل پراَثرات مرتب کرتی ہیں ۔بالکل اسی طرح اَحکام فقہ میں بھی قراءات کی اثر پذیری سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قراءاتِ قرآنیہ کو فقہاء کس نظر سے دیکھتے ہیں اور کس طرح سے یہ فقہی اَحکام پر اثر انداز ہوتی ہیں اس بحث کو ہم دو عناوین میں پیش کرتے ہیں : ۱۔ قراءاتِ قرآنیہ کے بارے میں فقہاء کا مؤقف ۲۔ اَحکام فقہیہ میں قراءاتِ قرآنیہ کے اَثرات کی مثالیں قراءاتِ قرآنیہ کے بارے میں فقہاء کا مؤقف اَئمہ فقہاء قراءاتِ قرآنیہ کے علماء ہونے کی وجہ سے بھرپور اہتمام کے ساتھ ان کو نقل کرتے ہیں اور انہی کی روشنی میں اَحکام شرعیہ مستنبط فرماتے ہیں ۔اب ہم قراءاتِ متواترہ اور شاذہ کے بارے میں فقہاء کا مؤقف پیش کرتے ہیں : قراءاتِ متواترہ کے بارے میں فقہاء کی آراء علم فقہ اور علم قراءات کی مدد سے احکام شرعیہ کی تبیین ووضاحت کرنے والوں میں سے ایک نام جلیل القدر تابعی امام حسن بصری رحمہ اللہ کا ہے جن کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’لوأشاء أن أقول إن القرآن نزل بلغۃ الحسن البصری لقلت لفصاحتہ‘‘[أحسن الأثر لمحمود الحصری:ص۹۹] ’’حسن بصری رحمہ اللہ کی فصاحت وبلاغت کی وجہ سے اگر میں یہ بھی کہنا چاہوں کہ قرآن ان کی لغت میں نازل ہوا، تو میں کہہ سکتا ہوں ۔ ‘‘ قراءاتِ قرآنیہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ آئمہ فقہاء مقام ومرتبے کے اعلیٰ معیار پر ہونے کے باوجود علماء قراءات کی تعظیم کرتے اور پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے ان کی طرف رجوع کرتے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ، امام حمزہ رحمہ اللہ(جو کہ قراء سبعہ میں سے ہیں ) کے بارے میں فرماتے ہیں : ’’ دوچیزوں کا علم آپ میں بدرجہ اَتم موجود ہے ایک قرآن اوردوسرا علم وراثت۔‘‘[أحسن الأثر للحصری: ص۵۳] ٭ مالک بن انس رحمہ اللہ امام ابوجعفر رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
[1] مؤلف کتاب علم القراءات نشأته، أطواره ، أثره في العلوم الشرعية [2] ٭ فاضل کلیۃ الشریعہ ،جامعہ لاہور الاسلامیہ و رکن مجلس التحقیق الاسلامی،لاہور