کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 391
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصحف کے ساتھ دشمن کے خطہ میں سفرکرنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ دشمن اس کی بے حرمتی نہ کریں ۔‘‘
مصاحف کا کسی نہ کسی شکل میں وجود تھا توآپ کی نہی کا تحقق ہوسکتاہے ،خواہ وہ باریک پتھروں پر تھا، اونٹ کی بڑی ہڈیوں پر تھایاکسی بھی شکل میں تھا۔جیساکہ روایات میں آتاہے کہ کاتبین وحی جن میں ابوبکرصدیق ،عمر فاروق ، عثمان ،علی ،ابان بن سعید،خالد بن الولید ،معاویہ بن ابی سفیان ،زید بن ثابت ،ابی بن کعب رضی اللہ عنہم کوجو چیز میسر آتی اس پر لکھ لیتے تھے،مثلاً کھجور کے پتے اور چمڑے کے ٹکڑے وغیرہ ۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی صریح روایت ہے کہ
’’کان رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا أنزلت علیہ سورۃ دعا بعض من یکتب فقال ضعوا ہذہ السورۃ فی الموضع الذی یذکر فیہ کذا وکذا ‘‘
’’جب کوئی سورت نازل ہوتی توکاتبین میں سے کسی کوبلا کر حکم دیتے کہ اس کو فلاں جگہ پر لکھو ۔‘‘
اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کنا عند رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نؤلف القرآن من الرقاع ’’ کہ ہم قرآن کوچمڑے کے ٹکڑوں پر لکھتے تھے۔‘‘
اور صحیح مسلم کی حدیث نمبر ۳۰۰۴ ہے
((لاتکتبوا عنی غیرالقرآن ومن کتب غیر القرآن فلیمحہ))
’’ یعنی قرآن کے علاوہ کچھ نہ لکھو جس نے لکھاہے وہ مٹا دے۔‘‘( تاکہ قرآن اور سنت ملتبس نہ ہو جائے،اگرچہ التباس کے رفع ہونے کے بعد اجازت دے دی تھی )
الغرض قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مکمل لکھا جاچکاتھا اوراس کی کتابت سبعہ احرف کے ساتھ تھی جیساکہ ابوشہبہ رحمہ اللہ نے المدخل کے ص ۲۶۸ پر نقل کیاہے۔
دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پھر صدیقی دور میں قرآن مجید کو جمع کیا گیا جیساکہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی لمبی روایت ہے جس میں یہ حروف ہیں وإنی أرای أن تاب جمع القرآن
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیجیے توپھر ان کے حکم سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے اس کام کومکمل کیا ۔
اور تاریخ بغداد جلد نمبر ۱۱ ص ۱۲۴ پر عبد خیر رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ
’’سمعت علیا بقول أعظم الناس أجرا فی المصاحف أبوبکر ورحمۃ اللّٰہ علی أبی بکر ہوأوّل من جمع اللوحتین‘‘
’’ سب سے زیادہ اجر توابوبکر رضی اللہ عنہ کاہے ،ان پر اللہ کی رحمت ہو جنہوں نے سب سے پہلے قرآن کوجمع کیا ۔‘‘
اس اثرکو ابوعبید رحمہ اللہ نے فضائل القرآن کے ص ۲۱۳ ،۲۱۷ پر اور ابوداؤد رحمہ اللہ نے کتاب المصاحف ص ۱۱ پر علامہ دانی رحمہ اللہ نے المقنع ص ۱۳ پر اور علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فضائل القرآن ص ۱۶ پر صحیح کہا ہے اور فتح الباری مجلد نمبر ۹ ص ۱۲ پر ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
دورِنبوی کی طرح دورِ صدیقی میں بھی قرآن کی کتابت سبعہ حروف کوشامل تھی جیساکہ محمد بن جریر الطبری رحمہ اللہ سے الاعلام جلد نمبر ۶ ص ۶۹ پر اور ابن عبدالبر رحمہ اللہ سے الاعلام جلد نمبر ۸ ص ۲۴۰ اور ابوالعباس