کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 390
کو﴿ذَوَاتَیْ اُکُلٍ خَمْطٍ وَاَثْلٍ ﴾کی جگہ اتل پڑھا رہا تھا ،اسی طرح ایک اعرابی نے امام کوپڑھتے سنا جس نے کسی شیخ پرنہیں پڑھا تھا ﴿وَلَا تَنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُوْمِنُوْا﴾ تووہ کہنے لگا سبحان اللہ یہ اسلام سے قبل قبیح تھا توبعد میں کیسے ہے تواس کو کہا گیاکہ یہ لحن ہے اصل میں ﴿تُنْکِحُوْا﴾ ہے تووہ کہنے لگا کہ قبحہ اللّٰہ لا تجعلوہ بعدہا اماما فإنہ یحل ماحرم اللّٰہ ۔
ان تمام روایات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کی تعلیم میں اصل تلقی وسماع وادائیگی ہے نہ کہ کتابت۔یہ توعام قرآن پڑھنے کے بارے میں روایات تھیں توقراءات کا تواس سے بھی مسئلہ پیچیدہ ہے تو اس کے لئے تو بالاولی سماع اور تلقی لازمی تھی جس کااللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیااور آج تک چلاآتاہے ۔اگر تلقی وسماع نہ ہوتا تو یہی کچھ ہوتا آتا اوربغیر قصد کے بھی غلطیاں ہوتیں ۔ چنانچہ شائد اسی صورت حال کوسامنے رکھتے ہوئے علامہ الشیخ محمدعلی بن خلف الحسینی الشہیر بالحداد رحمہ اللہ نے القول السدید فی بیان حکم التجوید کے ص ۵ پر یوں کہا ہے کہ
’’من یأخذ العلم عن شیخ مشافہۃ یکن عن الزیغ والتصحیف فی حرم ومن یکن آخذ للعلم من مصحف فعلمہ عند أہل العلم کالعدم‘‘
’’ جوعلم کو مشائخ سے بالمشافحہ حاصل کرتاہے ،تلقی کواعتماد بناتاہے وہ گمراہی اور تحریف سے محفوظ رہتاہے اورجو شخص محض مصحف اور کتابوں سے علم حاصل کرتاہے اہل علم کے نزدیک اس کا علم لاشیء اوربے حقیقت ہے ۔‘‘
چنانچہ اس تصحیف کے ڈر سے علماء نے کتابیں لکھیں جیسا کہ عبدالرحمن البسطامی رحمہ اللہ لکھتے ہیں أول من تکلم فی التصحیف للامام علی اسی طرح پھر أبو احمد الحسن بن عبد اللّٰہ بن سعید العسکری [م ۳۸۲ ھ] نے کتاب لکھی وما إلی غیر ذلک من الکتاب ۔
اس تمام بحث سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ قرا ء ات منزل من اللہ ہیں اور مبنی علی التلقی والسماع والروایۃ ہیں اور اصل مصدر ان کا تلقی اور ادائیگی ہے اگرچہ اس کی تدوین کی شکل بھی ہوئی جس پر دوسرے مرحلہ میں گفتگو کرتے ہیں ۔
دوسرا مرحلہ
یہ مرحلہ تدوین کامرحلہ ہے کہ قراءات کی تدوین بھی ہوئی۔ علوم اسلامیہ کی تاریخ اس بات پرشاہد ہے کہ قرآن مجید اوراس کی اشاعت وترویج کے لئے امت مسلمہ نے سب سے پہلے جس علم کو مدون کیا وہ علم تجوید وقراءات ہے، کیونکہ نظم قرآنی کی حفاظت ان دونوں کے بغیرناممکن تھی ۔جب قرآن مجید کانزول ہوا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو سکھلانے کے ساتھ کاتبین وحی کوبلا کرلکھا بھی دیتے تھے جیساکہ محمد محمد ابی شہبہ رحمہ اللہ نے المدخل لدراسۃ القرآن الکریـم کے ص ۳۴ پر اس بات کی صراحت کی ہے اور اس روایت سے بھی یہ ثابت ہوتاہے کہ قرآن لکھا بھی جاتاتھا جس کے ضمن میں قراءات بھی تھیں جس کوابن ابی داؤد رحمہ اللہ نے المصاحف مجلد نمبر۵ ص ۱۸۰،۱۸۱ پر نقل کیاہے کہ
’’ عن نافع عن ابن عمر نہی رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أن یسافر بالمصاحف إلی أرض العدو مخافۃ أن ینالوا وفی روایۃ مخافۃ أن یتناول منہ شیء وفی روایۃ مخافۃ أن ینالوا العدو‘‘