کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 388
علماء کے اقوال میں سے ایک یہ بھی قول ملتاہے کہ
’’من أعظم البلبیہ تشیخ الصحیفہ أی یتعلم الناس من الصحف‘‘ [تذکرۃ السابع:ص۸۷]
’’سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ کتاب کو استاد بنا لیا جائے۔‘‘
اور اس کتاب میں امام شافعی رحمہ اللہ کا قول منقول ہے کہ
’’ من تفقہ من بطون الکتب ضیع الاحکام ‘‘
’’یعنی جس نے صرف کتابوں کے اوراق سے فقاہت حاصل کی اس نے احکام کوضائع کیا۔‘‘
حتی کہ علماء توبغیر حفظ اور شیخ کے کتابت پراکتفاء کرنے کو مذموم گردانتے تھے جیسا کہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کتاب تقید العلم کے ص ۵۸ پر لکھتاہے کہ بئس المستودع العلم القراطیس
’’کہ علم کے لیے سب سے بری حفاظت کی جگہ اوراق ہیں ۔‘‘
اورابن عبدالبر رحمہ اللہ جامع بیان العلم : ۱/ ۶۹ پر لکھتے ہیں کہ یونس بن حبیب رحمہ اللہ نے ایک آدمی سے سنا کہ !
استودع العلم قرطاسا وضیعہ
وبئس مستودع العلم القراطیس
’’ جس نے علم کی امانت کواوراق کے سپرد کردیا اس نے علم کو ضائع کیا اور سب سے بڑی حفاظت کی جگہ اوراق ہیں ،کیونکہ اوراق ضائع ہوسکتے ہیں ، جل سکتے ہیں جبکہ سماع وتلقی پر مبنی علم تاحیات ساتھ رہتاہے الا یہ کہ کوئی عارضہ پیش آجائے ۔‘‘
اورعلامہ زرکشی رحمہ اللہ برہان فی علوم القرآن کی جلد نمبر ۲ ص ۱۵۳ پریحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں کہ
’’أفواہ الرجال حوانیتہا وأسناتہا صنائعہا فإذا فتح الرجل باب حانوتہ تبین العطار من البیطار والتمار من الزمار
’’ یعنی انسان کامنہ دوکان کی مانند ہے اوردانت ان دوکانوں کے ماہرین ہیں ۔ جب آدمی دوکان کا دروازہ کھولتاہے تویہ عطار(عطر بیچنے والا) اوربیطار(نعل بندی کرنے والا) کے درمیان ، تمار(کھجوریں بیچنے والا) اور زمار(بانسری بجانے والا)کے درمیان فرق کرتاہے ۔‘‘
یعنی ادائیگی سے ہرچیز کافرق واضح ہوجاتاہے جبکہ عدم ادائیگی سے یہ چیز میسرنہیں آسکتی۔
اورلبیب السعید رحمہ اللہ نے الجمع الصوتی الاول ص ۱۳۸ پر اسی کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے امام العسکری رحمہ اللہ کے حوالے سے خلف الاحمر رحمہ اللہ کا شعر نقل کیاہے۔
لا یہم الحاء فی القراءۃ بالخاء
ولا یأخذ إسنادہ عن الصحیف
’’حاء کی قراءت کرتے وقت خاء کے ساتھ ملتبس مت کی جائے او رنہ ہی اس کی سند کتب سے حاصل کی جائے۔‘‘
یعنی حاء اور خاء کا فرق اگر سمجھ آسکتاہے توسماع وتلقی من المشائخ سے آسکتاہے ۔علامہ جزری رحمہ اللہ نے بھی