کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 387
اسی طرح امام خطابی رحمہ اللہ الاعلام: ۲ / ۲۷۳ پر رقمطرازہیں کہ ’’إن أصحاب القراءات من أہل الحجاز والشام والعراق کل منہم عزا قراء تہ التی اختارہا إلی رجل من الصحابۃ قرأہا علی رسول اللّٰہ لم یثتثن من جملۃ القرآن شیئا ‘‘ ’’ حجاز، شام اور عراق کے علماء قراءات نے اپنی قراءات کی نسبت ان صحابہ کی طرف کی ہے جن صحابہ کی قراءات انہوں نے اختیار کی اور ہر چیز کومسند بیان کیا ہے۔‘‘ چنانچہ عاصم کوفی کی قراءات حضرت علی رضی اللہ عنہ اورابن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف مستند ہے او رابن کثیر مکی کی قراءۃ اور ابوعمر و بصری کی قراءۃ کی سند ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے اور ابن عامرشامی کی قراءۃ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ وعلی ہذا القیاس اورعلامہ قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر کی جلد نمبر ۱ ص ۵۹ پر نقل کرتے ہیں کہ ’’وہولاء کلہم یقولون قرانا علی رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وأسانید ہذہ القراءات متصلۃ ورجالہا ثقات فالقراءات سنۃ متبعۃ یأخذ الاخر عن الاول عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ‘‘ ’’ تمام صحابہ کرام7 نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھا اور ان قراءات کی اسانید متصل ہیں اوررجال ثقات ہیں اوریہ سنت متواترہ ہے ،متاخرین متقدمین سے حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ انہوں نے قراءات نقل وسماع پر مبنی اصول کے مطابق حاصل کیں اورساتھ ساتھ یہ بھی بتلایا کہ بغیر نقل وسماع صرف مصاحف پر اعتماد کرنا اورقرآن پڑھنا صحیح نہیں ۔چنانچہ جمیع قراءات اسلامی ممالک میں متداول رہیں ، جیسا کہ مکی بن ابی طالب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ دوسری صدی کی ابتداء میں لوگ بصرہ میں ابوعمرو اوریعقوب رحمہم اللہ کی، کوفہ میں حمزہ وعاصم رحمہم اللہ کی، شام میں ابن عامر شامی رحمہ اللہ کی، اور مکہ میں ابن کثیر مکی رحمہ اللہ کی اور مدینہ میں نافع رحمہ اللہ کی قراءات پڑھتے تھے لیکن تھی نقل وسماع پرمبنی کیونکہ بغیرنقل وسماع کے قرا ء ات کی صحت ممکن نہیں ۔‘‘ چنانچہ تصحیفات المحدثین مجلد نمبر ۱ ص ۶ پرسلیمان بن موسی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ’’ قا ل کان یقال لاتاخذوا القرآن من المصحفیین ولا العلم من الصحفیین ‘‘ ’’کہ قرآن ان سے نہ لو جنہوں نے مصاحف سے بغیر کسی استاد کے قرآن پڑھا ہو اور ایسے ہی ان لوگوں سے علم حاصل نہ کرو جو کتابوں سے بغیر استاد کے حاصل کرتے ہیں ۔‘‘ اورمذکورہ حوالہ ص ۷ پر سعید بن عبد العزیز التنوخی رحمہ اللہ کا قول روایت کیا ہے کہ ’’ لاتحملوا العلم عن صحفی ولا تاخذوا القرآن من مصحفی‘‘ ’’ کہ علم کومیرے صحائف سے اور قرآن کومیرے مصحف سے مت حاصل کرو۔‘‘ چنانچہ یہ قاعدہ مقررہوگیا کہ طالب علم مشائخ ضابطین متقنین سے بالمشافہ حاصل کرے جیساکہ لبیب السعید رحمہ اللہ نے الجمع الصوتی الاوّل کے ص ۱۳۲ پرنقل کیا ہے: ’’کیونکہ بغیر معلم کے علم کا صحیح حصول ممکن نہیں بلکہ کلام میں تصحیف ہوجاتی ہے ۔‘‘ چناچہ علماء وتابعین وتبع تابعین کویہ کہنا پڑا کہ لاتاخذوا القرآن من مصحفی ولا العلم من صحفی کہ قرآن کوصرف میرے مصحف سے اور علم کومیرے اوراق سے مت لو۔