کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 382
اس حدیث میں بھی سابقہ نزاع ہوا او ررفع نزاع کے لئے وہی نکتہ سامنے آیاکہ أقرأنیہا رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جوکہ تلقی وسماع کا بین ثبوت ہے اورپھر آپ کا قول ’’أن یقرأ کل منکم کما علم‘‘ سے یہ بات مترشح ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور تعلیم وتعلم کا سلسلہ بھی اعلی سطح پرہوتاتھا۔ اسی طرح طبرانی تفسیر معجم میں اورطبری تفسیرزید بن ارقم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: ’’جاء رجل إلی رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقا ل أقرأنی ابن مسعود سورۃ اقرانیہا زید،وأقرأنیہا أبی بن کعب فاختلف قراء تہم فبقراءۃ أیہم آخذ؟ فسکت رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وعلی إلی جنبہ فقال علی لتقراء کل إنسان منکم کما علّم فإنہ حسن جمیل ‘‘ اس حدیث میں ایک نئی چیز یہ سامنے آئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اسی منہج کے ساتھ لوگوں کو قراءات سکھلاتے تھے ۔گویا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی سماع وتلقی کا پورا لحاظ کرتے تھے،جوکہ اقرأ نی ابن مسعود، اقراء نیہا زید، اقراء نیہا أبی بن کعب سے سمجھ آتا ہے اور اسی طرح لیقراء کل إنسان منکم کما علم سے بھی یہی کلیہ اخذہوتاہے ۔ اوراسی طرح امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ’’لقی رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم جبریل وہوعند أحجار المری فقال إن أمتک یقرؤن علی سبعۃ أحرف فمن قراء منہم علی حرف فلیقرأ کما علم ولا یرجع عنہ‘‘ اس حدیث میں بھی فلیقراء کما علم ہمیں بتلاتاہے کہ صحابہ نے سماعا قراءات حاصل کی تھیں کیونکہ بغیر سماع او رتلقی کی صرف مصاحف کے اوپر اعتماد کرنے سے قراءت کی صحت کا تحقق نہیں ہوسکتا ،جیساکہ علی السبیل المثال لفظ ﴿لٰکِنَّا ہُوَ اللّٰہ رَبِّیْ﴾ جوکہ سورۃ کہف میں ہے، اسی طرح لفظ انا جہا ں بھی آئے اور لفظ الظنونا ، الرسولا،السبیلا ،قواریرا پہلا جوکہ سورہ دہر میں ہے،ان کووصل کرکے پڑھیں توالف کونہیں پڑھیں گے ، اگرچہ کتابت اس بات کا تقاضاکرتی ہے کہ الف پڑھا جائے، کیونکہ لکھا ہوا ہے ،لیکن سماع وتلقی یوں نہیں ۔اوروقف کریں توپھر الف کو پڑھیں گے جبکہ قواریرا دوسرا جوکہ(سورۃ دہرمیں ہی ہے اور اسی شکل کا ہے ) وہاں وصلا وقفا الف حذف ہوگا اسی طرح ﴿وَثَمُوْدَا وَقَدْ تَبَیَّنَ لَکُمْ ﴾[العنکبوت ] ﴿وَثموَدُاْ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ﴾[الفرقان ] اس میں وصلاً وقفا ًبغیر الف کے پڑھیں گے، کیونکہ سماع یوں ہی ہے، جبکہ کتابت الف کی ادائیگی کا تقاضا کرتی ہے ۔ اسی طرح ﴿اُوْلٰئِکَ﴾ میں اگرچہ کتابت ورسم اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ واوجو الف کے بعد ہے پڑھی جائے، لیکن اسے دنیامیں سوائے جہلاء کے اور کوئی نہیں پڑھتا ہوگا۔ اسی طرح لا إلی الجحیم،لا أنتم أشد رہبۃ،اولأذبحنہ میں لام کے بعد الف نہیں پڑھا جائے گا ،اگرچہ رسم میں ہے ۔آپ نے خود سکھلانے کے بعد یہ حکم بھی دیا کہ آگے پہنچاؤ۔ جیسا کہ بخاری کتاب الانبیاء حدیث نمبر ۳۴۶۲ اور ترمذی کتاب العلم حدیث نمبر ۲۶۷۱ عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ: ((أن رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: بلغوا عنی ولوآیۃ)) ’’یعنی میری طرف سے لوگوں کوپہنچادو خواہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ اس حدیث کے بارے میں علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فضائل قرآن کے صفحہ نمبر ۱۹ پر لکھتے ہیں کہ :