کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 381
علی سبعۃ أحرف فاقرؤا ما تیسرمنہ‘‘
یہ حدیث اس چیز کی واضح اور صریح دلیل ہے کہ قراءات تلقی وسماع پر مبنی ہیں ،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام7کو سکھلائیں ۔اسی لیے دونوں صحابہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے۔
اورسب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بذات خود اقرار کرنا کہ ہاں ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اگر اپنے پاس سے ہوتا تو کبھی ہکذا أنزلت نہ کہتے۔اس حدیث میں لفظ الاقراء کا تکرار اس بات کا بین ثبوت ہے کہ قراءت توقیف ،تلقین ،تلقی ،اخذ،مشافہہ ، نقل ،سماع عن رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر مبنی ہیں ۔ اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ہشام رضی اللہ عنہ کی قراءت کا انکار اس لئے نہیں کیا تھا کہ ان کی لغت میں نہیں تھابلکہ اس لئے کیا تھاکہ انہوں نے اس کے خلاف سنا تھا جوانہوں نے خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا تھا۔
اسی طرح طبرانی میں ایک روایت ہے کہ
’’ أن عمر سمع رجلا یقرأ فخالفت قراء تہ قراءۃ عمر فاختصما عند النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فقال الرجل الم تقرأ نی یارسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال بلی فوقع فی صدر عمر شیء عرفہ النبی وجہہ فضرب الرسو ل صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی صدر عمر وقال اللہم ابعد عنہ الشیطان ثم قال انزل القرآن علی سبعۃ أحرف کلہا شاف کاف
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جس آدمی سے جھگڑا ہوا تواس نے کس طرح ببانگ دہل کہا کہ الم تقرأنی یارسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ’’کہیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہیں پڑھائی؟ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: کیوں نہیں ، میں نے ہی پڑھائی ہیں ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی نہ ہوتی اور صحابی نے پڑھی نہ ہوتی توصحابی اتنی جرات نہیں کرسکتاتھا کہ ایسے الفاظ منہ سے کہتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تصدیق نہ فرماتے۔
اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں ابوقیس مولی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ:
’’أن رجلا قرأ آیۃ من القرآن فقال لہ عمر وإنما ہی کذا وکذا بغیر ما قرأ الرجل فقال الرجل ہکذا اقرأ نیہا رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فخرجا إلی رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حتی أتیاہ فذکرا ذلک لہ فقال إن ہذا القرآن نزل علی سبعۃ أحرف فأی ذلک قراء تم أصبتم فلا تماروا فی القرآن فان المراء فیہ کفر‘‘
اس حدیث میں بھی وہی سابقہ حدیث کامعمہ سامنے آیا ہے کہ لڑائی میں صحابی نے اپنے آپ کوسچاثابت کرنے کے لئے ٹھوس ثبوت کے طور پر فورا ہکذا أقرأنیہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کہہ ڈالا جس کی بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق وتوثیق کردی کہ ہا ں میں نے پڑھائی ہے۔اور اس لئے پڑھائی ہیں کہ قرآن اتراہی سات حروف میں ہے ۔
ابن حبان رحمہ اللہ اپنی مسند میں اور امام حاکم رحمہ اللہ مستدرک میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ :
’’اقرأنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سورۃ من آ ل حم فرحت إلی المسجد فقلت لرجل اقرأہا فاذا ہو یقرأ حروفا ما أقرأہا فقال أقرأنیہا رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانطلقنا إلی رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فأخبرناہ فتغیر وجہہ وقال إنما ہلک من کان قبلکم الاختلاف ثم أسر إلی علی شیئًا فقال علی إن رسو ل اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یأمرکم أن یقرأ کل منکم کما علم قال فانطلقنا وکل رجل منا یقرأ حروفا لا یقرأ صاحبہ ‘‘