کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 373
اس سلسلے میں ان پانچ شہروں کو معیار بنایا جائے گا جن کی طرف مصاحف عثمانیہ بھیجے گئے تھے ۔ ٭ مکی بن طالب رحمہ اللہ کے نزدیک عامۃ القراء کی قراءت سے مراد ایسی قراءت ہے جس پر اہل مدینہ وکوفہ نے اتفاق کیا ہو۔ ٭ جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد اہل حرمین کی قراءۃ ہے۔[الإبانۃ عن معانی القراءات:ص۴۹، ۵۰] لہٰذا ایک قراءات کے لیے راوی کا سند ذکر کردینا ہی کافی نہیں ہے بلکہ اولاً اس کا عامۃ القراء کی قراءت سے موافقت اوراُمت میں تلقی بالقبول حاصل ہونا ضروری ہے۔ تواترت قراءۃ الأئمۃ العشرۃ کا مطلب بلا شبہ آئمہ عشرہ نے جو قراءات روایت کی ہیں ان میں پورے طور پر تواتر کا التزام کیا ہے، پھر ان کی قراءات کی صحت پر عامۃ القراء نے شہادت دی اور لوگوں نے ان کی امامت اور قبول روایت پر اتفاق کیا ہے اور ان کی قراءات کو بذریعہ تلقی برضاو رغبت قبول کیا ہے۔ ٭ مدینہ منورہ میں بہت سے آئمہ کرام ایسے موجود تھے جنہوں نے امام نافع رحمہ اللہ اور ابو جعفر رحمہ اللہ سے مختلف حروف بیان کیے، لیکن ان دونوں اماموں کی قراءت پر لوگوں نے اجماع کر لیا۔یاد رہے کہ امام نافع رحمہ اللہ امام ابو جعفر رحمہ اللہ کے شاگرد ہیں ، لیکن امام نافع رحمہ اللہ کی قراءت کی زیادہ شہرت کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے امام ابوجعفر رحمہ اللہ سے تلقی کے ساتھ ساتھ دیگر قراء سے بھی قراءات اَخذ کیں ۔ اسی طرح مکہ مکرمہ میں عبداللہ بن کثیر رحمہ اللہ کے علاوہ دیگر آئمہ کرام بھی موجود تھے، جن میں محمد بن عبدالرحمن بن محیصن رحمہ اللہ اور حمید بن قیس الأعرج رحمہ اللہ جیسے آئمہ بھی شامل ہیں ، لیکن امت کی طرف سے جس قدر تلقی بالقبول عبداللہ بن کثیر رحمہ اللہ کو حاصل ہوا اس تک یہ دونوں حضرات نہیں پہنچ پائے۔ اسی طرح دیگر ائمہ کی حالت ہے، یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اجماع امت جمیع قراءات عشرہ پر منعقد ہواہے جن میں سات ابن مجاہد والے اور تین ابوجعفر رحمہ اللہ ، یعقوب الحضرمی رحمہ اللہ اور خلف بن ہشام رحمہ اللہ ہیں ۔ ٭ قراء سبعہ کی قراءت پر اِجماع تو بالکل واضح ہے، کیونکہ ان کے روایت کردہ حروف کو ہر طبقہ اور ہر زمانہ میں سند قبولیت عطاء کی گئی اور انہیں ضبط اور اِتقان سے متصف کیا گیا۔البتہ بقیہ تین قراء کی قراءات پر اِجماع کا دعویٰ کرنا مشکل ہے، کیونکہ اس میں اختلاف کیا گیا ہے، لیکن دو وجوہ سے اس اختلاف کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ۱۔ اُمت کا ہر طبقہ میں تینوں آئمہ کی قراءت پر اجماع رہا ہے۔ امام جزری رحمہ اللہ نے سولہ طبقات کا تذکرہ کیا ہے جن میں آئمہ کرام کی کثیر تعداد شامل ہے اور یہ بات علم یقین کے ثبوت اور شک زوال کے لیے کافی ہے۔ ٭ علاوہ ازیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ابو جعفر مدنی رحمہ اللہ کو نماز میں امام مقرر فرمایا اور ان کی امامت میں نماز ادا کی۔ [معرفۃ القراء :۱/۵۹] ٭ اورا بن مجاہد رحمہ اللہ ایک عرصے تک اس مخمصے میں رہے کہ یعقوب اور کسائی رحمہم اللہ میں سے کسے ساتویں امام کا درجہ دیں ۔[المنجد:۸۲] ٭ ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض قراء کا خیال ہے :