کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 372
ایسی روایات آج بھی موجود ہیں جنہیں مصاحف میں شامل نہیں کیا گیاتھا۔ ٭ صحیحین میں ابو الدرداء اور ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ﴿والَّیلِ إِذَا یَغْشَی وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلَّی وَالذَکَرِ وَالأُنْثَی﴾پڑھا۔ ٭ صحیحین اور دیگر کتب احادیث میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں : ’’کان مما أنزل اللّٰہ آیت الرجم فقرأناہا وعقلناہا ووعیناہا‘‘[صحیح البخاري،کتاب الحدود] ’’جب آیت رجم نازل ہوئی تو ہم نے اسے پڑھا، سیکھا اور یاد بھی کیا۔‘‘ ٭ مؤطا امام مالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ مذکور ہیں کہ اگر مجھے لوگوں کے یہ کہنے کا ڈر نہ ہوتا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کتاب اللہ اضافہ کر دیا ہے تو میں ضروریہ لکھواتا: ’’الشیخ والشیخۃ إذا زنیا فارجموہا البتۃ‘‘ ان حروف کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ یہ حروف منزل شدہ ہیں ، لیکن عرضۂ اخیرہ میں خدا تعالیٰ کے حکم سے ان کو منسوخ کر دیا گیا۔ êاس سے ثابت ہوا کہ مصاحفِ عثمانیہ میں عرضۂ اَخیرہ میں ثابت شدہ قرآنی احرف کو لکھا گیاتھااور ثابت شدہ کسی چیز کو بھی ترک نہیں کیا گیا۔محققین عظام کا اس پر اتفاق ہے کہ آئمہ عشرہ نے جو کچھ بھی روایت کیا ہے وہ انہی حروف میں سے ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ جو کچھ ان حروف سے ہٹ کر ہے بیان کیا گیا ہے وہ شاذ، منکر، ضعیف یا موضوع ہے۔ ٭ جزری رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں : ’’وقول من قال إن القراءات المتواترۃ لا حد لہا، إن أراد فی زماننا فغیر صحیح،لأنہ لا یوجد الیوم قراءۃ متواترۃ وراء العشر،وإن أراد فی الصدر الأول فیحتمل إن شاء اللّٰہ تعالیٰ‘‘ ’’بعض حضرات کا یہ کہناہے کہ قراءات متواترہ کی کوئی حد نہیں ہے(فرماتے ہیں ) کہ اگر ان کااس سے ارادہ یہ ہے کہ صدرِ اوّل میں ایساتھا تو یہ بات صحیح ہے لیکن موجودہ زمانہ میں قراءات عشرہ کے علاوہ کوئی متواتر قراءت نہیں ہے۔‘‘ قراءاتِ عشرہ کی اَسانید کا تواتر ٭ قراءاتِ قرآنیہ کو نقل کرنے کا قاعدہ یہ ہے: ’’إنہا ترویہا أمۃ عن أمۃ فی کل مصر وفی کل عصر‘‘ ’’یہ کہ قراءات ہر زمانہ اور ہر شہر میں ایک جماعت سے دوسری نے روایت کی ہوں ۔‘‘ یعنی کسی ایک، دو یا دس رواۃ کے نقل کرنے پر اکتفاء نہیں کیا جائے گا، بلکہ وہ اَحرف منقولہ جمیع افراد کو معلوم ہوں اور ان کے ہاں مشہور ہوں ۔ ٭ یہ ایسی اصطلاح ہے جس پر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد میں آنے والے تمام لوگوں کا اجماع منعقد ہواہے۔ عامۃ القراء سے مراد وہ قراءات قراء میں اس قدر معروف ہوں کہ کوئی فرد ایک لفظ بھی ایسا روایت کرے جو غیر مانوس ہو تو اس شہر کے دیگر جمیع قراء اس حرف کا انکار کردیں تو اس کی قراءت نہیں کی جائے گی اور اسے آحاداور شاذ شمار کیا جائے گا۔