کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 370
یحییٰ بن وثاب، عاصم بن ابی النجود، أعمش، حمزہ بن حبیب الزیات، علی بن حمزہ الکسائی رحمہم اللہ ٭ بصرہ کے قراء کرام عبداللہ بن ابی اسحاق، ابو عمروبن العلاء، عاصم الجحدری اور یعقوب الحضرمی رحمہم اللہ ٭ شام کے قراء کرام عبداللہ بن عامر یحصبی، عطیہ بن قیس کلابی، یحییٰ بن حارث الذماری رحمہم اللہ لوگ ان تمام شیوخ سے علم قراءات حاصل کرتے رہے اور ان کی روایات کو تلقی بالقبول حاصل رہا۔اس کے بعدبغداد میں قراءات کے شیخ ابوبکر بن مجاہد تمیمی بغدادی رحمہ اللہ نے ’’سبعۃ‘‘ کے نام سے کتاب تصنیف کی اور اس میں درج ذیل قراء کا اقتصار کیا: ٭ نافع،عبداللہ بن کثیر، عبداللہ بن عامر، عاصم بن ابی النجود، ابوعمرو بن العلاء رحمہم اللہ ،امصار خمسہ میں سے پانچ یہ اور پھراہل کوفہ میں سے مزید درج ذیل دو آئمہ کا تذکرہ کیا: ۱۔ حمزہ بن حبیب الزیات رحمہ اللہ ۲۔ علی الکسائی رحمہ اللہ ابوبکر بن مجاہد تمیمی رحمہ اللہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنی کتاب میں سات قراء کی قراءات کو ذکر کیا ۔ ان کا سات قراء کو ذکر کرنے کا مقصد یہ تھا کہ سات مصاحف عثمانیہ کی موافقت کی جائے، کیونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی سات مصاحف کی ترسیل فرمائی تھی۔ ٭ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مصنف کا اپنی کتاب میں سات قراء کولانا احرف سبعہ کی تفسیر کی طرف اشارہ کر نا ہے ، لیکن یہ صرف اور صرف غلط فہمی ہے۔کثیر تعداد میں لوگوں نے قراء کرام میں سے صرف ان لوگوں کے ذکر پر اکتفاء کیا ہے جن کو عوام میں بہت زیادہ شہرت حاصل ہوئی اور جن کو امت کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہوا۔ قراءات قرآنیہ کا سات یا دس، حتی کہ سو میں بھی اقتصار ممکن نہیں ہے اور اگر ہم ان کے روات کو نقل کرنا چاہیں تو وہ ہر زمانہ میں ہزاروں کی تعداد کو پہنچ جائیں گے۔ ٭ ابن مجاہد رحمہ اللہ ایک زمانہ تک اس مخمصے کا شکار رہے ہیں کہ اپنی کتاب میں یعقوب رحمہ اللہ اور کسائی رحمہ اللہ میں سے کس کو مقدم کریں ۔پھر انہوں نے کسائی رحمہ اللہ کو مقدم کیا اس لیے نہیں کہ وہ یعقوب رحمہ اللہ سے زیادہ اضبط ہیں بلکہ اس لیے کہ ان کی قراءت عالی سند کے ساتھ ہے۔[المرشد الوجیز:ص۱۶۱] ٭ اسی طرح امام حمزہ رحمہ اللہ کا، ان کے شیخ کے بجائے اختیار بھی ایک بین مثال ہے۔حالانکہ آپ کے زمانہ میں ابوجعفر، شیبہ، ابن محیصن، أعرج، أعمش، حسن بصری، أبو الرجاء، عطاء، مسلم بن جندب، یعقوب حضرمی، اور عاصم جحدری رحمہم اللہ جیسے بلند پایہ قراء کرام موجود تھے۔ ٭ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے ایک کتاب’جامع‘ کے نام سے تصنیف فرمائی جس میں انہوں نے آئمہ کی قراءات کو ان کی اَسانید کے ساتھ جمع کیا۔انہی قراء کا تذکرہ ابن مجاہد، ابو عبید قاسم بن سلام اور اسماعیل بن اسحاق القاضی رحمہم اللہ نے بھی کیاہے۔ابن مجاہد رحمہ اللہ سے قبل ابن جبیر مقری رحمہ اللہ نے ایک کتاب تصنیف کی جس میں آٹھ قراء کی قراءت کو جمع کیا۔ جن میں سے سات تو ابن مجاہد رحمہ اللہ کے ذکر کردہ ہیں اوران میں ایک یعقوب الحضرمی رحمہ اللہ کا اضافہ