کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 37
جس میں قرآن کو جمع کرنے کی کوشش کی گئی۔)[صحیح البخاري:۴۹۸۶]
۶۔ مختلف چیزوں پر لکھی گئی آیات کو وصول کرنے کامعاملہ بھی اتنا آسان نہیں رکھا گیاتھا بلکہ احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل طریقوں سے لائی جانے والی آیات کی تصدیق کی جاتی تھی۔
۱۔ یادداشت سے توثیق کی جاتی۔
۲۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حصرت زید رضی اللہ عنہ دونوں چونکہ حافظ قرآن تھے تو دونوں آیات کو وصول کرتے یعنی حضرت زید رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی ا پنے حافظہ سے اس کی توثیق کرتے۔ [فتح الباري:۹/۱۱]
۳۔کوئی آیت اس وقت تک قبول نہ کی جاتی جب تک کہ اس کے متعلق دو گواہیاں دستیاب نہ ہوجائیں ۔
اس ضمن میں یہ بات یاد رہے کہ مذکورہ بالااقدامات صرف احتیاط کے پیش نظر تھے وگرنہ سینکڑوں صحابہ قرآن کے حافظ تھے اور یہ آیات ان کو یادتھیں لیکن حفظ کے علاوہ کتابت کوملحوظ رکھتے ہوئے آیات کو تب لیاگیا کہ وہ کسی نہ کسی کے پاس لکھی ہوئی موجود ہو۔ یہی وجہ ہے کہ سورہ براء ت کی آخری آیات﴿لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ أنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ....الخ﴾حضرت خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے لکھی ہوئی ملیں [صحیح البخاري:۴۶۷۹]
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو صحیفہ مرتب فرمایا اس میں آیات قرآنی کو کاغذ کے مختلف صحیفوں پر مشتمل تھا اور ہر سورہ الگ صحیفہ میں لکھی گئی اس طرح یہ نسخہ مختلف صحیفوں کی شکل میں تھا۔ اوریہ نسخہ اُم کے نام سے معروف ہوا۔ اس نسخہ میں آیات کی ترتیب تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ پر تھی جبکہ سورتوں کی ترتیب نہ تھی۔ ہر سورت الگ الگ لکھی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اس نسخہ میں ساتوں حروف جمع تھے اور یہ نسخہ خط حیری میں لکھا گیا تھا اور اس میں صرف وہ آیات درج تھیں جن کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی تھیں ۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لکھوائے ہوئے یہ صحیفے آپ کے پاس رہے آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یہ نسخہ اُم المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا۔[فتح الباري :۹/۱۲۔۱۳]
تدوین قرآن؛ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں
تدوین قرآن کا آخری دور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پورا ہوا۔ اس کے متعلق صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔وہ اس وقت آرمینیہ اور آذربائیجان کی فتوحات کے لیے عراق اور شام کے مسلمانوں سے مل کر لڑ رہے تھے۔ آپ نے وہاں قراءۃ کااختلاف دیکھا تو گھبرائے ہوئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ امیرالمؤمنین اس اُمت کی اصلاح کیجئے، اس سے پہلے کہ یہود کی طرح یہ بھی قرآن میں اختلاف کرنے لگیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ جو صحیفے آپ کے پاس موجود ہیں ، ہمیں دے دیں ہم ان کو مصاحف کی شکل میں نقل کرنا چاہتے ہیں اور نقل کرنے کے بعد آپ کوواپس کردیئے جائیں گے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ صحیفے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھیج دیئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے زیدبن ثابت، عبدالرحمن بن زبیر، سعید بن العاص اور عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کی ایک کمیٹی تشکیل دی۔یہ چار آدمی تھے، تین قریشی اور ایک انصاری۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تینوں قریشیوں کو کہا کہ جب تمہارازید رضی اللہ عنہ سے قرآن میں سے کسی لفظ کے لکھنے میں اختلاف ہو تو اس کو قریش کے رسم پر لکھنا، کیونکہ قرآن قریش کی زبان