کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 369
ہے، کیونکہ ہمارا علم محدود اور ناقص ہے۔ یہ بات قطعی ہے کہ قراءت جوتواتر کے ساتھ منقول ہو اور مصحف عثمانی کے موافق ہو وہ نازل کردہ قرآن ہے یہ ایک ایسی قطعی دلیل ہے جو وجود لغت کا پتہ دے رہی ہے، جس کے ثبوت میں کوئی بحث نہیں ہے۔ ۳۔ لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ تیسری شرط، پہلی دو شرطوں کا لازمی نتیجہ ہے بذات خودایک شرط نہیں ہے۔ قراءات عشرہ متواترہ علماء قراءت نے ذکر کردہ ارکان ثلاثہ کو قراءت کے لیے لازم قرار دیاہے پس ہر وہ قراءۃ جو ان تینوں ارکان سے متصف ہو گی وہ قرآن کا حصہ ہوگی اور نماز اور غیر نماز میں اس کی تلاوت کی جائے گی اور جو روایت ان ارکان سے خالی ہوگی اسے قبول نہیں کیا جائیگا، نہ اس کی تلاوت ہی کی جائیگی اور نہ ہی اس پر قرآن کریم کا حکم لگایا جائے گا۔ بعض علمائے قراءۃ نے اس بات کو ناپسند کیا ہے کہ قراءۃ کی نسبت اس کے نقل اور روایت کرنے والے کی طرف کی جائے یعنی یہ کہا جائے کہ : قراءۃ أعمش رحمہ اللہ یا قراءۃ ابی عبدالرحمن سلمی رحمہ اللہ ، تاکہ کسی کو یہ وہم لاحق نہ ہوجائے کہ یہ صرف اسی کے ساتھ خاص ہے اور کسی اور سے مروی نہیں ہے۔یا کسی کو یہ شک نہ ہوجائے کہ اس کا اجتہاد اور رائے اس میں داخل ہے۔ ٭ صدر اول کے لوگوں نے عدد رواۃ کی تحدید اور تخصیص کی جانب دو وجوہ سے رخ نہیں کیا: ۱۔ ہمتوں کا بہت زیادہ ہونا ۲۔ قرآن کے نزول کا زمانہ قریب ہونا۔ صدر اول کے لوگوں نے تحدید رواۃ کی طرف اس لیے توجہ نہیں دی، کیونکہ وہ شوقِ دین سے مالامال تھے اور اپنی تمام ہمتیں اس کام پر صرف کرنے پر آمادہ تھے، لیکن پھر جب ہمتیں جواب دے گئیں اور نزول قرآن کا قریبی زمانہ جاتا رہا۔ روایت کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ اسناد منتشرہو گئیں تو لوگوں نے اس کام کو ضبط کرنے کا ارادہ کیا تاکہ یہ لوگوں پرمختلط نہ ہو۔پس اسی تناظر میں محققین عظام نے حروف مرویہ، روایات، طرق اور اسانید کی تلاش کے لیے کوششیں شروع کر دیں ۔ پس اسی تتبع اور استقراء کے باوصف آئمہ کرام کے اختیارات وجو د میں آئے۔ ٭ ان آئمہ کو بقیہ رواۃ سے کیونکر امتیاز حاصل ہوا کیونکہ یہ حفظ، ضبط اور اتقان میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے۔ انہی خصوصیات کی بناء پران کی روایات کو لوگوں میں تلقی بالقبول حاصل ہوا اور ہر شہر میں ان کے ضبط اور امامت پر لوگوں نے اجماع کیا۔ محققین عظام نے ان آئمہ کے اختیارات میں اختلاف کیا ہے۔ البتہ تمام لوگ ان پانچ شہروں ( مکہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام) میں موجود آئمہ قراء کی امامت پر متفق ہیں جن میں مصاحف عثمانیہ بھیجے گئے۔ ٭ مکہ مکرمہ کے قراء کرام عبداللہ بن کثیر، محمد بن عبدالرحمن بن محیصن اور حمید الدین بن قیس الأعرج رحمہم اللہ ٭ مدینہ منورہ کے قراء کرام ابوجعفر یزید بن قعقاع، شیبہ بن نصاح اور نافع بن ابی نعیم رحمہم اللہ ٭ کوفہ کے قراء کرام