کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 36
مجید کے غیرمرتب ہونے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ یہ زمانہ نزول وحی کا زمانہ تھا اور نزول وحی کے زمانہ میں آیات کی کمی و بیشی بھی ہوسکتی تھی، بعض احکام اور آیات منسوخ بھی ہوسکتے تھے، بعض میں کچھ اضافہ بھی ہوسکتاتھا اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قرآن مجید کو تدوینی شکل نہ مل سکی۔ ۵۔ جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ کتابت وحی کا کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں شرو ع ہوچکا تھا۔ کاتبین وحی کی تعداد چالیس تک شمار کی گئی ہے جن میں مشہور یہ ہیں : ابوبکر، عمر، عثمان، علی، ابی بن کعب، عبداللہ بن ابی سرح، زبیر بن عوام، خالد بن سعیدبن العاص، ریان بن سعیدبن العاص، حنظلہ بن الربیع، معقیب بن ابی فاطمہ، عبداللہ بن ارقم الزہری، شرجیل بن حسنہ، عبداللہ بن رواحہ، عامر بن فہیرہ، عمرو بن العاص، ثابت بن قیس بن شماس، مغیرہ بن شعبہ، خالد بن ولید، معاویہ بن ابی سفیان، زید بن ثابت رضی اللہ عنہم۔ تدوین قرآن: حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن مجید کو صحیفوں کی شکل دی گئی۔ حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پیغام بھیجا کہ یمامہ کے محاذ پر قراء کرام کثرت سے شہید ہورہے ہیں ۔ یاد رہے کہ یمامہ کی لڑائی مسیلمہ کذاب کے خلاف لڑی گئی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کے پاس ہی تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہاکہ مقتولین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، مجھے ڈر ہے کہ اگر اسی طرح تیزی سے قراء شہید ہوتے گئے تو قرآن کا بہت سارا حصہ ضائع ہوجائے گا، میرا خیال ہے کہ قرآن کو جمع کرلیاجائے تو میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہا کہ جو کام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا، ہم وہ کیسے کرلیں ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ھٰذا واللّٰہ خیر’’اللہ کی قسم! مجھے تو یہ کام بہتر نظر آتاہے۔‘‘ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سلسلے میں مجھ سے باربار تقاضا کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا اور میری رائے بھی وہی ہوگئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو کہا کہ آپ نوجوان اور عقلمند ہیں ، ہمیں آپ پرشک و شبہ کا بھی امکان نہیں ۔ آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھتے تھے اور اب آپ ہی قرآن کا تتبع کریں اور اس کو جمع کریں ۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! مجھے اگر یہ لوگ پہاڑ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا کہتے تو یہ آسان تھا، بہ نسبت اس کے کہ میں قرآن مجید کو جمع کروں تو میں نے کہا : یہ کام آپ کیسے کرنا چاہتے ہیں جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ھو واللّٰہ خیر’’ اللہ کی قسم یہ بہتر ہے۔‘‘ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس طرح اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ نے میرا سینہ کھول دیا جس کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا سینہ کھول دیا تھا۔ میں نے پھر قرآن مجید کی جستجو کی اور اسے کھجور کی چھڑیوں ، پتوں اور لوگوں کے دلوں سے جمع کرنا شروع کردیا حتیٰ کہ سورۂ توبہ کی آخری آیت ﴿لَقَدْ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ﴾مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے ہاں سے ملی جو کہ کسی کے پاس لکھی ہوئی نہ تھی۔ یہ صحیفے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہے، یہاں تک ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور بعد ازاں اُم المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے پاس رہے۔ یہ وہ ابتدائی شکل تھی