کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 35
تھے۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’أسرّ إلی إن جبریل کان یعارضنی القرآن کل سنۃ وإنہ عارضنی العام مرتین ولا أراہ إلا حضر أجلی‘‘(صحیح البخاري:۳۶۲۴] ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کی اور فرمایا جبرئیل مجھ سے ہر سال ایک مرتبہ قرآن کا دور کیا کرتے تھے،اس سال دو مرتبہ کیا ہے میں یہ خیال کرتا ہوں کہ میری موت کا وقت آپہنچا ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن کو یاد کرنے کے اہتمام کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی یہ رجحان عام تھا کہ وہ قرآن کریم کی سورہ کو یاد کرتے لہٰذابے شمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کو اپنے سینوں میں محفوظ کیا ہوا تھا۔ اور ان حفاظ صحابہ رضی اللہ عنہم کاذکر ہمیں متعدد کتب میں ملتاہے۔ ابوشامہ المقدسی رحمہ اللہ نے امام ابوعبیدالقاسم بن سلام رحمہ اللہ کی کتاب القراءات کے حوالے سے پچیس حفاظ و قراء صحابہ کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق مہاجرین میں سے۔ ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہ، سعد، ابن مسعود، سالم، حذیفہ بن الیمان، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عمرو، عمرو بن العاص، ابوہریرہ، معاویہ بن ابی سفیان، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن سائب رضی اللہ عنہم ۔ انصارمیں سے:ابی بن کعب،معاذ بن جبل، ابوالدرداء، زید بن ثابت، مجمع بن جاریہ اور انس بن مالک شامل ہیں ۔ اسی طرح ازواج مطہرات میں سے حضرت عائشہ، حضرت حفصہ اور حضرت اُم سلمہ] کے نام بھی حفاظ کی فہرست میں شامل ہیں ۔[المرشد الوجیز، ص۴۰] ان کے علاوہ ابومعبد الخوری،ثمیم الداری، سلمہ بن مخلد، ابوموسیٰ اشعری، عبادہ بن صامت، ابوایوب انصاری، ابوزید انصاری، فصالہ بن عامر، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہم کے نام ملتے ہیں ۔ اور وہ حفاظ صحابہ جو جنگ یمامہ میں شہید ہوئے اور وہ جن کو آپ متفرق قبائل کی طرف قرآن کی تعلیم کے لیے بھیجتے تھے اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ حفاظ صحابہ کی تعداد سینکڑوں تھی۔علامہ یمینی رحمہ اللہ کے مطابق جنگ یمامہ کے موقع پر سات سو حفاظ قراء شہیدہوئے۔[عمدۃ القاری:۲/۱۶] حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’إن ھذا العدد ھم الذین عرضوہ علی النبی واتصلت بنا أسانیدھم وأما من جمعہ منھم ولم یصل بنا فکثیر‘‘ [طبقات القراء، ص۲۴تا۴۲] ’’یہ تعداد وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متصل سند کی بنا پرمنقول ہوئی ہے جبکہ غیر متصل سند سے منقول تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔‘‘ بہرحال ابتدائے اسلام میں قرآن کی حفاظت کے لیے صدری طریقہ ہی اختیار کیا گیا اور ان حالات کے پیش نظر یہی طریقہ قابل اعتماد تھا۔قرآن کی حفاظت بذریعہ کتابت کے ادوار کا ذکر آئندہ سطور میں کیاجائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن مکمل ہوچکا تھا، لیکن غیرمرتب تھا۔لوگ مختلف آیات اور سورتوں کو پتھروں پر، کھجور کے پتوں اور چھڑیوں پراور اسی طرح چوڑی ہڈیوں اور باریک چمڑوں پر لکھ لیتے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک قرآن