کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 343
الگ الگ ماننا پڑتا ہے، کیونکہ موجودہ قراءات سبعہ یا عشرہ سے بھی ’سبعۃ أحرف‘کی نسبت توافق کی نہیں ۔ جمیع علمائے قراءات کے ہاں بھی ’سبعۃ أحرف‘ اورموجودہ سبعہ قراءات ایک چیز نہیں ، بلکہ ’سبعۃ أحرف‘اساس ہیں اور موجودہ قراءات سبعہ یا قراءات عشرہ انہی سے ماخوذ ہیں ۔ مزید برآں جمیع اہل علم کا اتفاق ہے کہ آج ’سبعۃ أحرف‘ کا مصداق دنیا میں موجودہ قراءات عشرہ ہی ہیں ۔ باقی رہا یہ معاملہ کہ بعض لوگوں کے خیال میں امام ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے منزل من اللہ سات حروف کو بارہ ہزار صحابہ کے اتفاق رائے سے منسوخ کردیا تھا، تو اس بارے میں پچھلے سوال کے جواب میں ہم نے وضاحت کردی ہے کہ یہ بات حافظ ابن جریر رحمہ اللہ پر الزام ہے، وہ تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ اسلامی حکومت کے خلیفہ کو سیاسی وتدبیری طور پر جو بعض اختیارات شریعت کی طرف سے دئیے گئے ہیں ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی ضمن میں ’حروف سبعہ‘ کو موقوف کردیا تھا، جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت کے آخر میں شرعی صراحت کے باوجود ایک مجلس کی تین طلاقوں کو وقتی مصلحت کے تحت تین شمارکرناشروع کردیا تھا۔ اب خلیفہ راشد کو اس قسم کا اختیار حاصل ہونے کے بارے میں توتمام جلیل القدر آئمہ کے ہاں کو ئی اختلاف نہیں ، بلکہ اس معاملے میں حدیث((علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین)) [ابن ماجہ:۴۳] کی روشنی میں تو اب یہی رائے معروف ہوگئی ہے کہ خلفائے راشدین کا جاری کردی سیاسی وتدبیری حکم بھی مثل شریعت کے دائمی وابدی طور پر بطور قانون نافذ کیا جائے گا۔ اسی بنا پر ہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کافیصلہ ہو یا خلفائے راشدین کے بعض دیگر اس قسم کے فیصلے، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وقتی ضروریات ومصالح ختم ہوجانے کے باوجود ان امور کے عین اسی طرح جاری کرنے پر ہمارے روایتی دینی فکر میں کس طرح اصرار کیا جاتا ہے، مثلا اس سلسلہ میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کے تین شمار کیے جانے کے بارے میں مذاہب اربعہ کی رائے معروف ہے، حالانکہ ہماری رائے ان تمام امور میں مذہب اہل الحدیث کے مطابق یہی ہے کہ جن ضروریات ومصالح کا شریعت نے خود لحاظ کرلیا ہے، دائمی وابدی حیثیت تو صرف انہی کو حاصل ہے، البتہ تمدن کے تحت پیدا ہوجانے والی دیگر وقتی ضروریات ومصالح کے ضمن میں خلفائے راشدین کا اجتہاد ہو یا صحابہ رضی اللہ عنہم وآئمہ مجتہدین کی فقہی رائے، بہرحال وقتی ضرورت پوری ہوجانے کے بعد اس کا ازخود خاتمہ ہوجائے گا۔ اس سلسلہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ کی کتب میں بہت مفید بحثیں ملتی ہیں ، جن پر ٹھنڈے دل سے ضرور غور ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں ہم پیچھے سوال نمبر۲۳ کے ذیل میں کافی تفصیلی بحث کرچکے ہیں ، مزید بحث کے بجائے اُسی پر اکتفاء کرتے ہیں ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے’سبعۃ أحرف‘ میں سے چھ حروف کے ’موقوف‘ کرنے کے بارے میں حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف پر سردست ہم اتنا عرض کردینا کافی ہوگا کہ ہماری تحقیق کے مطابق ان کے بارے میں دیگر علماء کا یہ اعتراض تو بالکل بجاہے کہ ان کا یہ کہنا کہ چھ حروف کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ’موقوف‘ کر دیا تھا اور ’موقوف‘ کردینے کی نوعیت یہ تھی کہ بعد میں اسے’ منسوخ‘ کی مثل دائمی طور پر ختم کردیا تھا، بہرحال صحیح نہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں چھ حروف کے خاتمہ کے بارے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کام کی توجیہ منسوخ