کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 341
لغات‘ مراد لیتے ہیں ، تو امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے موقف کی وضاحت نہیں کرتے، جس سے محسوس ہوتاہے کہ یہ لوگ غالبا چھ حروف کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ۔ سبعۃ أحرف‘ بمراد ’سبعہ لغات‘ کے قائلین کے ہاں چونکہ بالعموم یہ بات روز اَوّل سے تقریبا طے چلی آرہی ہے کہ موجودہ قراءات ایک حرف قریش سے ماخوذ ہیں ، نیز ’سبعہ اوجہ‘ کے قائلین بھی یہ بات جانتے ہیں کہ ’سبعہ لغات ‘ مراد لینے کی صورت میں واضح بات ہے کہ عرضہ اخیرہ میں مترادفات کے منسوخ ہو جانے کے بعد باقی رہ جانے والے اختلاف کو متعدد لغات کے قبیل سے ماننا غیر معقول ہوگا، چنانچہ وہ ابتداء ہی سے اس مشکل سے یوں نکل گئے ہیں کہ انہوں نے ’حروفِ سبعہ‘کی توضیح ’اوجہ سبعہ‘ سے کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں بھی جن حضرات نے حافظ ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے پر طعن کیا ہے، وہ یہی کہتے ہیں کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ لغات‘ مراد لینے کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ لہجوں اور اسالیب بلاغت کا باقی رہ جانے والا اختلاف صرف ایک لغت قریش کا حاصل قرار پائے گا اور کتب میں جب ’سبعہ اوجہ‘ کو ’سبعہ لغات‘ کے قول پر ترجیح دی جاتی ہے تو وہ اسی تناظر میں دی جاتی ہے کہ’سبعہ لغات‘ مراد لینے کی صورت میں لازم آئے گا کہ موجودہ قراءات صرف ایک حرف قریش کا حاصل ہیں ، رشد ’قراءات نمبر ۱‘ میں مولانا تقی عثمانی حفظہ اللہ کے مضمون کا سارارجحان اسی طرف ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ قطع نظر اس بحث کے کہ امام ابن جریر رحمہ اللہ کی رائے ماننے کی صورت میں چھ حروف کا منسوخ ہونا لازم آتاہے،یہاں یہ نکتہ بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ اگر ہم ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لیں تو بھی مذکورہ سوال واحتمال باقی رہتا ہے کہ امام ابن جزری رحمہ اللہ وغیرہ کی بیان کردہ ’سات وجوہ اختلاف‘ ایک حرف قریش کا حاصل ہیں یا مختلف لغات عرب سے ماخوذ ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ ، جو ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ اوجہ‘ مراد لینے والے اولین اور نمایاں ترین عالم ہیں ، باوجود اس کے ’سبعۃ أحرف‘ کی مراد کے سلسلہ میں امام ابن جزری رحمہ اللہ نے اصلا ان کی رائے کو اختیار کیا ہے ، لیکن دوسری طرف عملاً جب اس بحث پر آتے ہیں کہ’ سبعہ اَوجہ‘ کا یہ اختلاف سات احرف کا حاصل ہے یا ایک حرف قریش کا؟ تو اپنا میلان اس طرف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ ایک حرف کاحاصل ہے۔ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ’سبعہ اوجہ‘ کے قائلین کی رائے کا امام طبری رحمہ اللہ کی رائے سے کوئی تعارض نہیں ، کیونکہ انہوں نے قراءات کے اختلاف کی جو سات اقسام ذکر کی ہیں ، ان کے حوالے سے یہ سوال تو پھر بھی قابل حل رہتا ہے کہ یہ ’سات اوجہ‘ ایک حرف قریش میں موجود لہجات واسالیب بلاغت کے اختلاف کا حاصل ہیں یا ساتوں حروف میں موجود لہجات یا اسالیب بلاغت کا خلاصہ ہیں ؟ مزید برآں موجودہ قراءات عشرہ کو ایک حرف قریش کا حاصل ماننے والے جہاں یہ دلیل دیتے ہیں کہ تعددِ لغات بنیادی طور پر مترادفات کی کثرت کا نام تھا اور جب عرضہ اخیرہ میں مترادفات منسوخ ہوگئے تو گویا کہ لغات کا اساسی اختلاف بھی ختم ہوگیا، وہیں ان کے کچھ دلائل اس کے علاوہ بھی ہیں ، مثلا ۱۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی موجود ہے: ﴿ وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ﴾ [إبراھیم:۴] اب یہاں امام طحاوی رحمہ اللہ اور امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ وغیرہ نے یہ نقل کیا ہے کہ اس آیت میں آپ کی قوم سے مراد