کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 340
جبکہ حافظ ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد اختلاف ِقراءات کی ’سات وجوہ‘ ہیں ۔ ہمارے مطالعہ کے مطابق دونوں شخصیتوں کی اپنی رائے کو ’جمہور‘ کی طرف منسوب کرنے کی تطبیق یہ ہے کہ جمہور قراء حافظ ابن جزری رحمہ اللہ کی رائے پر ہیں ، جبکہ جمہور علماء حافظ اِبن عبد البر رحمہ اللہ کی رائے کے قائل ہیں ۔ سبعہ لغات‘ کے قائلین میں سے علماء کی طرف سے نمائندہ شخصیت امام طبری رحمہ اللہ کی ہے، جبکہ’ سبعہ اَوجہ‘ میں قراء کی طرف سے نمایاں حافظ ابن جزری رحمہ اللہ ہوئے ہیں ۔ قبل ازیں ’سبعۃ أحرف‘کی مراد کے تعین میں دلائل کی روشنی میں ہم نے ترجیح ’سبعہ لغات ‘کے قول کو دی تھی، اگرچہ وہاں ہم نے اِن اہل علم کے ہاں داخلی طور پر موجود اختلاف کو ذکر نہیں کیا تھا کہ جو حضرات ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں ، ان کے ہاں مزید اس سلسلہ میں بھی اختلاف ہے کہ ’لغات ِسبعہ ‘ سے کیا مراد ہے۔ اس بارے میں ان کی دو آراء ہیں : ۱۔حافظ ابن جریر رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ’ لغات سبعہ‘ میں شامل تینوں قسم کے اِختلاف(یعنی لہجات، مترادفات اور اسالیب بلاغت) میں سے اصل شے’ مترادفات‘ کا اختلاف ہے،کیونکہ کسی بھی لغت میں لہجات کا متعدد ہونا اورمختلف اَسالیب سے بات کو مخاطب تک پہنچانا ذیلی طور پر ہی شامل ہوتا ہے، لیکن تعدد ِ لہجات اور اسالیب ِکلام کی کثرت اس بات کا لازمہ نہیں کہ اس اختلاف کو لغات کے تعدد سے تعبیر کیا جائے، مثلا اردو زبان دنیا میں بولی جانے والی تیسری بڑی زبان ہے، مختلف علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی اردو بولی میں نمایاں فرق ہے، لیکن بولیوں کے اس تعدد کو عقلی طور پر نفس ِزبان کے تعدد سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، جیسے لکھنؤ اور لاہور کی اردو بولی کا فرق ہے، لیکن کوئی دانش مند یہ نہیں کہے گا کہ بولیوں کی اس دوئی کو اردو لغت کی دوئی سے تعبیر کیا جائے۔ یہی حال کراچی اور بعض دیگر علاقوں میں بولے جانے والے اردو لب ولہجے کا ہے، لیکن اس کے باوجود اردو زبان ایک ہی ہے، جسکے ادباء اور شعراء بھی ایک ہی ہیں ۔ الغرض ان علماء کے ہاں موجودہ قراءات عشرہ میں پایا جانے والا لہجوں کا اختلاف بنیادی طور پر کئی لغات کا اختلاف نہیں ، بلکہ صرف ایک لغت قریش ہی کا ذیلی اختلاف ہے۔ رہا اسالیب ِبلاغت کا اختلاف، تو اس کے بارے میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک ہی لغت کاایسا طرز تکلم ہوتا ہے، جس میں مخاطب کی رعائت کرتے ہوئے مختلف اَسالیب سے بات کو واضح کیا جاتا ہے۔ بعد ازاں امام طبری رحمہ اللہ کی رائے کی طرف میلان پیش کرنے والے علماء میں نمایاں نام امام طحاوی رحمہ اللہ ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، امام قرطبی رحمہ اللہ ، امام ابن کثیر رحمہ اللہ ، امام ابن عبد البر رحمہ اللہ وغیرہ کا آتا ہے۔ ۲۔ حافظ ابن جریر رحمہ اللہ وغیرہ کے بالمقابل بعض علماء ’سبعۃ أحرف‘ سے جب ’سبعہ لغات‘ مراد لیتے ہیں ، تو لغات میں اصل شے لہجوں کے اختلاف کو سمجھتے ہیں، جبکہ باقی دو قسموں کے اختلافات کو ذیلی شمار کرتے ہیں ۔ ان لوگوں کے ہاں عرضہ اخیرہ میں مترادفات کا اختلاف ختم ہوجانے کے بعد ’سبعہ لغات‘ کا بنیادی اختلاف چونکہ باقی بچ گیا تھا، اس لیے موجودہ قراءات عشرہ صرف ایک لغت قریش کے بجائے مزید چھ لغات کو بھی محیط ہیں ۔ ان اہل علم کے ناموں سے تو ہم واقف نہیں ، لیکن عام طور پر امام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ ، امام ابو محمد مکی بن ابی طالب القیسی رحمہ اللہ اور امام دانی رحمہ اللہ ، شیخ القراء قاری فتح محمد پانی پتی رحمہ اللہ وغیرہ جب ’سبعۃ أحرف‘ سے ’سبعہ