کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 34
عیسیٰ علیہ السلام کی اصل سامی زبان سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا اسی لیے یونانی انجیلوں کا اپنے اتارنے والے سے رشتہ اور رابطہ یہود کی تورات اور عربوں کے قرآن سے کہیں کمزور ہے۔‘‘
’’یہ ان صحیفوں کاحال ہے جن کو ان کے ماننے والے ہزاروں برس سے سینوں سے لگائے ہوئے ہیں اوردنیا کی دو متمدن ترین قومیں (یہود اور عیسائی) ان کی حلقہ بگوش اورعلمبردار ہیں اور اسلام اور مسلمانوں نے بھی ان کو اس حد تک تسلیم کیا ہے کہ ان دونوں کو اہل کتاب کا نام دیا ہے۔‘‘ [نفس مصدر ملحق مارچ۲۰۰۱ء]
مذکورہ بالاحقائق سے ثابت ہوا کہ قرآن کی حفاظت قرآن کاایک اہم اعجاز ہے، اور کیوں نہ ہو اس کتاب کے نازل کرنے والے نے اسے تحریف و تبدل اور کمی و زیادتی سے محفوظ رہنے کا ذمہ لیا ہے اور یہ ذمہ تاقیامت قائم ہے۔
تدوین قرآن، زمانۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کی تدوین کاکام باقاعدہ طور پرنہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مختلف آیات نازل ہوتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے: اسے فلاں سورت میں رکھ دو، فلاں جگہ پر رکھ دو۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آیات کی ترتیب مکمل ہوئی اور یہ ’ترتیب توقیفی‘کہلاتی ہے یعنی ایسی ترتیب جو انسانوں کے اپنے ذوق کی بجائے وحی الٰہی پر موقوف ہو۔جہاں تک سورتوں کی ترتیب کاتعلق ہے تو علامہ سیوطی رحمہ اللہ وغیرہ کا خیال ہے کہ یہ بھی ’توقیفی‘ ہے، لیکن جمہور علماء اس کے توقیفی ہونے کے قائل نہیں ۔
قرآن کریم کے نزول سے بلکہ اس کی جمع و تدوین تک کے تمام مراحل کا مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں قرآن کی حفاظت و جمع کے لیے دو طریقے نظر آئیں گے۔
۱۔ حفظ ۲۔ کتابت
آغاز وحی سے ہی یہ دونوں طریقے استعمال ہوتے رہے ہیں لیکن اس کا مدار زیادہ تر حفظ پر رہا ہے جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ :
﴿لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ٭ إنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْأنَہ٭ فَإِذَا قَرَأنَاہٗ فَاتَّبِعْ قُرْآنَہٗ٭ ثُمَّ إنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ﴾ [القیامۃ:۱۶تا۱۹]
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اس وحی کوجلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو اس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے لہٰذا جب ہم اسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قراءات کو غور سے سنتے رہو پھر اس کامطلب سمجھا دینا بھی ہمارے یہی ذمہ ہے۔‘‘
چونکہ حفظ اُمت محمدیہ کی خصوصیات میں سے ہے اس لیے قرآن اور اس کی قراءت میں اس پر اعتماد کیا گیا۔
ابن جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’إن الاعتماد فی نقل القرآن علی حفظ الصدور والقلوب لا علی حفظ المصاحف والکتب و ھذہ الشرف خصیصۃ من اللّٰہ تعالیٰ لھذہ الأمۃ‘‘ [النشر :۱/۶]
’’قرآن کے نقل کرنے میں اعتماد حفظ القلوب پر ہے نہ کہ مصاحف اور کتب کی حفاظت پر اور اس امت کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم خاصہ ہے۔‘‘
قرآن کی صدری حفاظت کے لیے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہرسال رمضان المبارک میں جبریل علیہ السلام سے دور فرمایاکرتے