کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 339
یا دیات وغیرہ کے قبیل کی امثلہ میں علمائے امت متفق ہیں کہ دین میں دیئے گئے کسی اختیار کو تاقیامت ختم نہیں کیا جاسکتا اور دلیل یہی پیش کی جاتی ہے کہ امت کو بشمول صحابہ اس بات کا اختیار دیا ہی نہیں گیا، تو جب سب امت مل کر یہ کام نہیں کر سکتی تو اختلاف ِقراءات کے ضمن میں یہ کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بارہ ہزار صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت اس کام کو کرلیا؟ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دعوی ہے کہ اس قسم کی سطحی بات کوئی عالم تو کجا، کوئی صحیح العقیدہ مسلمان بھی نہیں کر سکتا۔ عام طور پر یہ قول مستشرقین نے امام القراءت والتفسیر ابن جریر طبری رحمہ اللہ کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ ابن جریر طبری رحمہ اللہ نے اس بات کو کہیں ذکر نہیں کیا۔ ایک جلیل القدر عالم اس طرح کی بات کربھی کس طرح سکتا ہے۔ وہ تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ جس طرح خلفائے راشدین کے ہاں سیاسی پہلوسے کچھ خاص اختیارات ہوتے ہیں کہ مصالح وغیرہ کے پیش نظر کسی شے کو وقتی طورپر مو قوف کرسکتے ہیں ، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک شمار کرنا شروع کردیا تھا اور بقول امام ابن قیم رحمہ اللہ مرنے سے قبل اپنا یہ تدبیری وسیاسی حکم واپس لے لیا تھا، اسی طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فتنہ و فساد کے سد باب کیلئے متعدد قراءات کے معاملہ کو وقتی طورپر موقوف کردیا تھا۔ لوگوں نے خلفائے راشدین کے اس قسم کے واقعات کو بعد ازاں ’اوّلیات‘ کے نام سے پیش کیا ہے۔ اس قسم کے واقعات صرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نسبت سے ۳۸ کے قریب بیان کیے جاتے ہیں ۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف پر بحث تو بعد میں ہوگی، سردست اتنا ذکر کرنا مقصود ہے کہ اس قسم کی جاہلانہ بات گذشتہ چودہ صدیوں میں کسی مستند عالم کی نسبت سے ثابت نہیں کی جاسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اسی سلسلہ میں الإحکام اور الفصل فی الملل والنحل میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے بطور دفاع کے زوردار الفاظ میں یہ فرمایا ہے کہ جو یہ کہتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو منسوخ کردیا تھاوہ بالکل غلط کہتا ہے، اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا کرتے یا ایسا کرنے کا ارادہ بھی فرماتے تو ایک ساعت کے توقف کے بغیر اسلام سے خارج ہوجاتے۔[الاحکام:۱/۵۶۵] امام ابن حزم رحمہ اللہ کے مذکورہ بیان میں سختی کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی بندہ اس قسم کا غلط عقیدہ رکھے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یاصحابہ نے یہ کام کیا، تو وہ پرلے درجہ کا بدعتی ہے۔ اُس کی غلطی کی دو جہتیں ہیں : پہلی وجہ تو یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ قرآن مجید محفوظ نہیں ہے، کیونکہ اگرحضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا صحابہ رضی اللہ عنہم قرآن مجید میں نعوذ باللہ تحریف یا تنسیخ کردیں تو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کاکیامعنی ہوگا : ’’لایأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ‘‘ دوسری وجہ یہ ہے صحابہ کرام کے بارے میں ایسا عقیدہ رکھناکہ صحابہ رضی اللہ عنہم اس قسم کا کام کرسکتے ہیں ؟ کسی صحیح العقیدہ مسلمان کے لیے ممکن ہی نہیں ۔ ہمارا تو ان کے بارے میں عقیدہ یہ ہے کہ وہ عادل ہیں ، صادق ہیں اور قرآن کریم کے محافظ ومبلغ ہیں ۔ سوال نمبر۲۸: اِمام ابن جریر رحمہ اللہ کے موقف کے حوالے سے وضاحت فرمائیے کہ ’سبعۃ أحرف‘ کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے اوران سے منسوب یہ رائے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے چھ حروف کو ختم کردیا تھا، کیا صحیح ہے؟ جواب: ’حروف ِسبعہ‘ سے مراد کے ضمن میں سوال نمبر ۱۴، ۱۵ میں گذر چکا ہے کہ اس سلسلہ میں اہل علم کے ہاں دو آراء معروف ہیں ۔ بقول حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ ’سبعۃ أحرف‘ سے مراد ’سبعہ لغات‘ ہیں ،