کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 338
تلفظ وادائیگی کی باریکیاں تو چونکہ رسم قرآن اور ضبط ِکلمات میں آہی نہیں سکتیں اسی لیے رسم الخط کو اصل بنانے کے بجائے حفاظ اور قراء کرام کو اصل بنایا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر یہ بات بھی مد نظر رہے کہ مصاحف عثمانیہ کو چونکہ نقاط اور حرکات سے معری رکھا گیا تھا، چنانچہ مصاحف کے ہمراہ ضرورت تھی کہ قراء کرام کو بھی ساتھ بھیجا جائے تاکہ وہ قرآن کریم کی تعلیم دیں اور تعلیم وتعلّم اور تمام قسم کے دیگر اختلافات کے لیے مصحف بطور معیار ان کے ہمراہ ہو، چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسی طرح کیا۔ مدینہ، مکہ، بصرہ، شام اور کوفہ وغیرہ کی طرف بھیجے مصاحف کے ہمراہ حکومتی سطح پر ماہر قراء کرام کو بھی روانہ کیا گیا۔ لوگوں کے حق میں اصل قاری تھے، جبکہ مصاحف محض جانچ کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اس طرح سے قاریوں نے جس انداز میں پڑھایا، بعد ازاں متعلقہ علاقہ میں وہی اندازِ تلاوت رائج ہوا۔
مذکورہ تفصیلی بحث سے واضح ہوگیا کہ جمع عثمانی کی نوعیت کیا تھی اور مصاحف کے ضمن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے کام کا پس منظر کیا تھا۔ یاد رہے کہ جمع عثمانی کے بارے میں مذکورہ ساری تفصیل بالعموم فتح الباری میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تفصیلا ذکر کی ہے۔ بہرحال اب ہم آتے ہیں اس بحث کی طرف کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قراءات کے ضمن میں موجود اختلاف کو ختم کیا تھا یانفس قراءات کو؟ اس کا جواب ایک صحیح العقیدہ مسلمان کے ہاں واضح ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو کام بھی کیا تھا اس میں بہرحال دین کی خدمت کا ایک پہلو تھا، یہ ممکن نہیں کہ وہ قرآن کریم کی آیات اور قراءات کو اپنی طرف سے ختم کرتے رہیں ، جبکہ انہیں اس قسم کاکوئی اختیار حاصل نہ تھا۔
مسلمان کا عقیدہ ہی اس کو صراط مستقیم پر باقی رکھتا ہے، کوئی آدمی جو عقیدہ صحیحہ کا مالک ہو وہ دین وشریعت کے بارے میں اپنے صریح عقائد کے منافی کبھی غیر ذمہ دارانہ بات نہیں کرتا۔ عقیدے میں یہ مسئلہ طے شدہ ہے کہ شریعت ما أنزل اللّٰہ کا نام ہے اور جو شے ما أنزل اللّٰہ ہے، وہی وحی ہے۔ وحی ہی سے قرآن و سنت کا تعین ہوتاہے۔ وحی میں جس شے کو قرآن قرار دیا گیا، وہ قرآن بنے گی، اور جس شے کو حدیث قرار دیا گیا وہ حدیث بنے گی، اسی طرح وحی میں جس شے کو بطور قرآن ختم کردیا گیا وہ منسوخ ہوجائے گی اور جس شے کو بطور حدیث منسوخ کردیا وہ ختم ہوجائے گی۔ اس کے بارے میں اہل سنت کا اجماع ہے اور یہ اجماع ہر دور میں رہا ہے کہ نسخ صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے ہوسکتا ہے، اس لیے علماء کے ہاں یہ اصول طے شدہ ہے:
’’ والإجماع لاینسخ‘‘ یا ’’والإجماع لیس بناسخ‘‘
البتہ علمائے اُصول کے ہاں یہ مسئلہ ضرور موجود ہے کہ کسی شرعی مسئلہ کے بارے میں اجماع صریح نص کے مخالف نظر آئے تو اب چونکہ امت تو غلطی پر اکٹھی ہو نہیں سکتی، اس لیے ضرور کوئی نص موجود ہوگا، جو ہمارے علم میں نہیں آرہا ہوگا اور وہ اس شرعی مسئلہ کا ناسخ ہوگا، لیکن یہ عقیدہ کسی کا نہیں کہ اجماع خود کسی شے کو منسوخ کر سکتا، کیونکہ اجماع لوگوں کے اتفاق کا نام ہے۔ اگر لوگ سارے بھی متفق ہوجائیں تو نہ وحی بنا سکتے ہیں اور نہ وحی مٹا سکتے ہیں ۔ یہ ممکن ہی نہیں ، جو اسے ممکن سمجھتا ہے وہ انتہائی بد عقیدہ شخص ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر تفصیلا بحث کی ہے، تفصیل کے شائقین کتاب ’اصول فقہ وابن تیمیہ‘ کی طرف رجوع فرما سکتے ہیں ۔
رشد’ قراءات نمبر‘ حصہ اوّل میں سوال نمبر۱۲ کے ضمن میں تفصیلا یہ بحث گذر چکی ہے کہ اختلاف مخیر، جیسے کفارات