کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 334
پیدا ہوا اس کو سمجھ لیں ، کیونکہ جب تک بات کا پس منظر معلوم نہ ہو، پتہ چلنا مشکل ہوتا ہے کہ مسئلہ کیا تھا اورپھر اس مسئلہ کا علاج کیا تجویز کیا گیا۔ ضرورت یہ پیش آئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عرصہ دراز سے اختلاف قراءت کے ضمن میں کچھ مسئلہ درپیش تھے: ۱۔عرضۂ اخیرہ میں مترادفات کے قبیل کی کافی چیزیں منسوخ ہوگئی تھیں ، لیکن چونکہ جبریل علیہ السلام کے ساتھ اس آخری دور میں اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم موجود ہی نہیں تھے، تو ان چیزوں کی تفصیلات کا علم نہ ہوسکنے کی وجہ سے کئی صحابہ رضی اللہ عنہم ان منسوخ التلاوۃ الفاظ کی تلاوت کرتے، بلکہ انہوں نے اپنے ذاتی مصاحف میں ان کو باقاعدہ طور قرآن لکھ رکھا تھا۔ یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کئی ایسے امور کی تلاوت کر رہے تھے ، جو کہ منسوخ ہوچکے تھے اور مدینہ کے اندر وباہر یہ اختلاف صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا رہتا تھا کہ کوئی کہتا تھا یہ قرآن ہے اور کوئی کہتا تھا یہ قرآن نہیں ہے۔ ۲۔ دوسرا اختلاف یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید کی ابتدائے کتابت کے دور میں فرمایا تھا: ((لا تکتبوا عنی، ومن کتب عنی غیر القرآن فلیمحہ)) [صحیح مسلم:۵۳۲۶ ]کہ مجھ سے قرآن کریم کے علاوہ کچھ نہ لکھو، تاکہ وحی باللفظ کا وحی بالمعنی سے اختلاط نہ ہوجائے، چنانچہ جب اختلاط کا اندیشہ ختم ہوگیا تو آپ نے حدیث لکھنے کی اجازت دیدی، جیسا کہ روایات میں موجود ہے۔ اس ضمن میں درپیش مشکل یہ تھی کہ لوگ قرآن کی تبیین کے ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو بھی قرآن کے ہمراہ لکھ لیتے تھے، جنہیں بعد ازاں قرآن سے الگ نہ لکھنے کی وجہ سے غلطی سے تلاوت ِقرآن میں بطور قراءات داخل کرلیا جاتا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کسی مصدقہ مصحف کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس قسم کے تفسیری کلمات کا اختلاف بھی زوروں پر پہنچا ہوا تھا۔ لوگوں میں ان تفسیری توضیحات کے ضمن میں شدید اختلاف چل رہا تھا کہ بعض لوگ انہیں قراءت کا درجہ دے کر باقاعدہ تلاوت کرتے۔ ۳۔ قرآن کریم کے ضمن میں موجود اس قسم کے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر یہود ونصاری نے بھی سازش کرکے کئی کلمات اور الفاظ کو درمیان میں داخل کردیا تھا۔ عبداللہ بن سبا یہودی سازشی کو کون نہیں جانتا ، ان جیسے لوگوں نے موقع غنیمت جانا اور اپنی طرف سے کئی کئی چیزیں گھڑ کر قرآن مجید کی قراءات پر درمیان میں پھیلانا شروع کردیں ۔ ضرورت اس امر کی تھی حکومتی سطح پر حکومتی نگرانی میں کوئی ایسا مصدقہ مصحف تیار کروایا جائے جسے بطور معیار کے لاگو کرکے اس قسم کے اختلافات کا فیصلہ کیا جائے۔ اِدھر یہ معاملے توپہلے ہی چل رہے تھے کہ اُدھر ایک ایسا اہم واقعہ پیش آگیا کہ جو ان تمام اختلافات کو ختم کرنے کے لیے ایک تحریک کا سبب بن گیا۔ ہوا یوں کہ آذربائیجان اور آرمینیہ وغیرہ کے علاقے، جوکہ مدینہ وغیرہ سے کافی دور تھے، کیونکہ قریب کے لوگوں میں یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا، ان علاقوں میں یہ مسئلہ پیدا ہواکہ جو صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین کے تلامذہ اور اولادیں تھیں ، ان لوگوں کے اندر اپنے اساتذہ اور خاندانوں کی عصبیت کی وجہ سے یہ مسئلہ پیداہوا کہ میرے استاد کا جو اندازِ تلاوت ہے وہ تمہارے استاد سے زیادہ بہتر ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ جس آج بھی مختلف مسالک کے مشائخ ِقراءات کے تلامذہ کے ہاں اس قسم کا احساس پیدا ہوجاتا ہے کہ میرا استاد زیادہ قابل ہے، حالانکہ ایسانہیں ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے قرآن مجید کی قراءات میں ترجیح کا اختلاف جب زیادہ