کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 331
پڑھنا وغیرہ کلمات پیش کرتے ہیں ، جبکہ تحقیق یہ ہے کہ عرضۂ اخیرہ میں باقی رہ جانے والے اختلاف کے بالمقابل وہ قراء ات(مترادفات) جو منسوخ ہوئیں تھیں وہ کئی گنا تھیں ۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے بطور مثال سورۃ الفاتحہ میں جن منسوخ قراءات کو اوپر ابھی پیش کیا ہے، وہ سورۃ الفاتحہ میں موجود غیر منسوخ قراءات کے بالمقابل کہیں زیادہ ہیں ۔ مزید برآں اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ قراءات شاذہ تو ایک لفظ میں بسا اوقات دسیوں ہوتی ہیں ، جبکہ قراءات متواترہ میں لہجات سے قطع نظر دیگر قسم کے اختلافات اس کے مقابلے میں کہیں تھوڑے ہیں ۔ جن حضرات نے اس ضمن میں تفسیر بیضاوی اور ’قراءات سبعہ وعشرہ‘ سے اُوپر کی مزید غیر متواتر شاذہ چار قراءات اور آٹھ روایات کا باقاعدہ مطالعہ کیا ہے، وہ اس بات کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں ۔ اسی طرح جن لوگوں نے متن ِقرآن کو محرف ثابت کرنے کے لیے مستشرقین کے کام کا دقت سے جائزہ لیا ہے وہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ قراءات عشرہ میں کوئی ایسا اختلاف شائد ہی موجود ہو جوکہ متن ِقرآن میں تحریف کی دلیل بن سکے۔ مستشرقین نے اس ضمن میں سارا فائدہ اُن اختلافات ِقراءات سے اٹھایا ہے، جن کے بارے میں اُمت کا اتفاق ہے کہ یہ عرضہ اخیرہ میں منسوخ ہوگئے تھیں ۔ مستشرقین نے قراءات شاذہ اور عرضۂ اخیرہ میں منسوخ التلاوہ الفاظ سے کس طرح قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟ اس کی تفصیلات جاننے کے لیے قارئین کے لیے جناب محمد فیروز الدین شاہ کھگہ حفظہ اللہ کی تحقیقی کاوش ’اختلاف قراءات اور نظریہ تحریف قرآن‘ اور مولانا محمد اسلم صدیق حفظہ اللہ کے تحقیقی مقالہ ’قراءات شاذہ، شرعی حیثیت اور تفسیر وفقہ میں ان کے اَثرات‘ کے باب پنجم کامطالعہ بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔ مذکورہ حقائق کی روشنی میں علمائے قراءات کی کتب میں ایک مسئلہ عمومی طور پر زیر بحث آیا ہے کہ موجودہ قراء ات(عشرہ صغری وکبری) ’حروف ِسبعہ‘ کا کل ہیں یا بعض؟ علمائے قراءات کے ہاں بالعموم اس کا جواب یہ ہے کہ موجودہ قراءات ’سبعۃ أحرف‘ کے کل نہیں ، بلکہ بعض میں سے ماخوذ ہیں ۔ اس تعبیر سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر عرضہ اخیرہ میں تھوڑی بہت قراءات منسوخ ہوئی ہوتیں تو معاملہ کی تعبیر اور طرح سے ہوتی۔ ’سبعۃ أحرف‘ کے ضمن میں اتارے گئے اختلاف ِقراءات میں سے جو اختلاف بعد ازاں غیر منسوخ طور پر باقی رہ گیا تھا، وہ اصل ’سبعۃ أحرف‘ کا ایک حصہ تھا، کل نہیں ۔ سوال نمبر ۲۶: جب عرضہ اخیرہ میں متعدد قراءات کے منسوخ ہونے کو علماء تسلیم کرتے ہیں تو یہ بحث اٹھانے کی کیا ضرورت ہے کہ موجودہ قراءات ’سبعۃ أحرف‘کا کل ہیں یا بعض؟ جواب: آپ اپنے سوال کے ضمن میں غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو منسوخ ہوگیا وہ توختم ہوگیا، اس لیے معاملہ کو الجھانے کے بجائے سیدھا سیدھا کہنا چاہیے کہ موجودہ قراءات ’سبعۃ أحرف‘کا کل ہیں ، کیونکہ جو ختم ہوگیا ہمیں اسے کالعدم خیال کرتے ہوئے بھول جانا چاہیے اور اب جو باقی ہے اسے بعد کی صورتحال کے مطابق کل ’سبعۃ أحرف‘سے ہی ماخوذ تعبیر کرنا چاہیے۔ـ یہ بات بظاہر تو ٹھیک ہے، لیکن اس بحث کو اہل علم نے اٹھایا کیوں ہے؟ اس کا ایک پس منظر ہے۔ وہ یہ کہ جو اہل علم ’سبعۃ أحرف‘ کی تشریح سبعہ لغات سے کرتے ہیں ، ان کے ہاں عام طور پر ان لغات کا تعلق مترادفات ِ تلاوت سے ہے۔اب ’اختلاف ِ مترادفات‘ تو عرضہ اخیرہ