کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 33
۳۔لین پول(Lanepoole)کہتا ہے۔
’’قرآن کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کی اصلیت میں کوئی شبہ نہیں ہے ہر حرف جو ہم آج پڑھتے ہیں اس پر یہ اعتمادکرسکتے ہیں کہ تقریباً تیرہ صدیوں سے غیر مبدل رہا ہے۔‘‘[مجلہ فہم القرآن لاہور، اپریل ۲۰۰۱ء بحوالہ مضمون ابوالحسن ندوی]
اور اس کے برعکس دوسرے آسمانی صحائف کا یہ خیال ہے کہ وہ اب تک دین اصل شکل میں صحیح و سالم موجود نہیں اور یہ تاریخی طور پر ثابت اورایک حقیقت ہے جس کا اعتراف خود ان امتوں اور قوموں نے کیا ہے جن کے پاس یہ صحائف آئے تھے عہد تحقیق کے صحیفے برابر غارت گری اور آتشزدگی کاکھلے طور پر نشانہ بنتے رہے ہیں اور خود یہودی مؤرخین کا اس پر اتفاق ہے کہ تاریخ میں تین بار ایسے مواقع پیش آئے ہیں ۔
۱۔ پہلی دفعہ جببابل کے بادشاہ بخت نصرنے یہودیوں پر(۵۸۶ ق م) میں حملہ کیا اور بیت المقدس کو آگ لگا د ی جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے توریت کی تختیاں اور آل موسیٰ و آل ہارون علیہما السلام کے تبرکات محفوظ کردیئے تھے اور جو یہودی قتل سے بچ گئے انہیں وہ قید کرکے بابل لے گیا جہاں وہ پچاس سال تک رہے اور عذرا نبی کے پانچ پہلے صحیفوں کو جو ’توراۃ‘ کہلاتے ہیں اپنے حافظہ سے دوبارہ لکھوایا اور واقعات کو تاریخی اسلوب میں لکھا پھر ’یخمیا‘ نے کتابوں کے دوسرے سلسلہ کااضافہ کیا اور حضرت داؤد علیہ السلام کو بھی ملحق کیا۔
۲۔ دوسری مرتبہ انطبورخس چہارم(Antiorhus) جسے ’ابیقانس‘ کہاجاتا ہے، نے(۱۶۸ق م)میں بیت المقدس پرحملہ کرکے صحائف مقدسہ کو جلا دیا جو بعد میں پھر مرتب ہوئے۔
۳۔ تیسری بار ٹائٹس(Titus) رومن بادشاہ ۷ ستمبر ۱۹۷۰ء کو حملہ کیااور مقدس صحیفوں کو یادگارکے طور پر اپنے ساتھ دارالحکومت لے گیا اور یہود کو جلا وطن کردیا۔
پیغمبروں کے ان صحیفوں اور آسمانی کتابوں کی صحت و حفاظت اور مطابق اصل ہونے کے بارے میں یہودیوں کا معیار اور نقطہ نظر اس معیار اورنقطہ نظر سے قطعاً مختلف ہے جو مسلمانوں کاقرآن مجید کے آسمانی اور الہامی وحی اور کتاب ہونے کے بارے میں ہے مسلمان قرآن مجید کے ہر لفظ کو کلام الٰہی منزل من اللہ اور اپنے زمانہ نزول سے لے کر اس وقت تک اس کی اپنی اصل حالت اور شکل میں محفوظ جانتے ہیں جبکہ یہودیوں کے نزدیک ان کتابوں میں کی گئی ترمیم و کمی بیشی ان کی آسمانی کتابیں ہونے کے منافی نہیں وہ انبیاء علیہم السلام کو ان کا مصنف کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں ممتاز ترین یہودی فضلاء اور ماہرین فن کی تیار کی ہوئی یہودی انسائیکلو پیڈیا میں اس طرح مرقوم ہے:
’’یہودی روایات اگرچہ اس پر مصر ہیں کہ عہد نامہ قدیم انہیں کرداروں کی تصنیف ہے جو ان میں مذکور ہیں اور یہ قطعاً غیر مناسب بھی نہیں ہے مگر انہیں یہ ماننے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ ان میں سے بعض کتابوں میں بعد میں ترمیم و اضافہ کیا گیا ہے۔‘‘
اسپینوزا(Spinoza) کاکہنا ہے کہ ’’عہد نامہ قدیم کی پہلی پانچ کتابیں موسیٰ کی نہیں عذرا کی تصنیف ہیں ۔‘‘
اناجیل کے بارے میں نو مسلم فرانسیسی مستشرق مولسبوایقین دینیہ(Eatonpien) کے متعلق لکھتے ہیں :
’’اللہ نے جو انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کی اور قوم کی زبان میں دی تھی وہ تو کوئی شک نہیں کہ ضائع ہوچکی ہے اور اب اس کاکوئی نام و نشان بھی نہیں رہ گیا ہے یاوہ خود تلف ہوگئی یاعمداً تلف کردی گئی ۔اسی وجہ سے عیسائیوں نے اس کی جگہ چار ’تالیفات‘ کو اپنا یاجن کی صحت اور تاریخی حیثیت مشکوک ہے کیونکہ یہ یونانی زبان میں ملتی ہیں جس کا مزاج حضرت