کتاب: رُشدقرأت نمبر 2 - صفحہ 328
اختلافات کا ایک سرسری جائزہ لینے کے لیے مناسب ہوگا کہ قراءات نمبر(حصہ اوّل) میں مطبوع ڈاکٹر محمد اکرم چودھری کے مضمون کا قارئین دوبارہ مطالعہ کر لیں ، جس سے بہ آسانی سے احساس ہوجائے گا کہ صحیح بخاری میں پیش کردہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے مشاہدے کے مطابق بیان کردہ اختلاف ِقراءات سے قطع نظر اس سے قبل مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں منسوخ التلاوۃ کلمات(اور تفسیری کلمات کو بطور قرآن پڑھنے) کے ضمن میں اختلاف قراءات کا جو معاملہ درپیش تھا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اورکبار صحابہ رضی اللہ عنہم خود اس سلسلہ میں انتہائی پریشان تھے۔ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کی توجہ دلانا تو صرف ایک سبب بن گیا، ورنہ جمع عثمانی کا اصل پس منظر آذربائجان اور آرمینیہ وغیرہ علاقوں میں موجود اختلاف کے ساتھ ساتھ درحقیقت ’قراءات شاذہ‘ ،جو کہ منسوخ التلاوۃکلمات اور تفسیری کلمات کا بطور قرآن رائج پذیر ہو جانا جیسے اختلافات پر مشتمل ہوتی ہیں ، کے ضمن میں عرضہ اخیرہ میں منسوخ شدہ وہ اختلاف ِقراءات بھی تھا جو کہ انتہائی پریشان کن نوعیت اختیار کرگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کام کو کرنے کا ارادہ کیا تو ابتداء بھی اس کام کی بھرپور تائید کی گئی اور کر چکنے کے بعد بھی ہزاروں صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمل کے صحیح ہونے پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔
اسی طرح یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اصلا ’سبعۃ أحرف‘ کے موجود اختلافات پر تو صرف اس قدر کام کیا تھاکہ ایک ایسا جامع رسم، جو کہ قبل ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے توقیفی طور پر چلا آرہا تھا اور اسے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یکجا کردیا تھا، پیش کردیا جو کہ اعراب ونقط سے خالی ہونے کی وجہ سے جمیع غیر منسوخ اختلافاتِ قراءات کو شامل تھا، لیکن ان کا اصل کام، جس وجہ سے انہیں ’جامع القرآن‘ کا لقب ملا وہ یہ تھا کہ وہ غیر مصدقہ مصاحف، جوکہمنسوخ التلاوۃ کلمات کے ایک بڑے ذخیرے پر مشتمل تھے، کو ختم کرنے اور اُمت میں متفقہ متن ِمصحف کو پیش کرنے کا باعث بنے، ورنہ جمع قرآن کے سلسلہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمات بھی معمولی نہ تھیں کہ انہیں جامع القرآن کا لقب نہ ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ مستشرقین نے قرآن مجید کو محرف ثابت کرنے کے لیے اس کے متن کو خصوصا موضوع بحث بنایا ہے اور اس ضمن میں جس شے سے انہوں نے بہت ہی فائدہ اٹھایا ہے وہ اختلاف قراءات کے ضمن میں مترادفات کا اختلاف ہے، ناکہ لہجات واسالیب بلاغت کے قبیل کا اختلاف، کیونکہ ان دونوں شکلوں کا اختلاف قراءات تو ہر صورت میں رسم ِعثمانی میں آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحت قراءت کی متفقہ شرط رسم عثمانی کی موافقت ہے اور موجودہ قراءات عشرہ کے اصولی وفرشی سب قسم کے اختلافات اس شرط پر پورا اترتے ہیں ۔
نوٹ: قراءات شاذہ مترافات کے قبیل کے منسوخ التلاوۃ کلمات اور تفسیری الفاظ پرمشتمل ایسے مجموعے کو کہتے ہیں جوکہ ثبوت قرآن وقراءات متواترہ کی شرائط پر ثابت نہ ہوسکے۔ انہی کی ایک صورت اُن موضوع روایات(قراء ات) پر بھی مشتمل ہے، جو کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ وغیرہ کے زمانہ میں منسوخ التلاوۃ وغیرہ کے ضمن میں موجود اختلاف ِقرآن سے فائدہ اٹھا کر ملاحدہ اور یہود ونصاری نے داخل کردیں تھیں ، اگرچہ ماہرین فن نے ان کا اصطلاحی نام ’موضوع قراء ات‘ ہی رکھا ہے۔ جمع عثمانی کے اسباب میں یہ سارے اسباب ہی پیش نظر تھے۔